آمریت یا جمہوریت ؟

نقطہ نظر:ڈاکٹر محمد منظور عالم

”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“یہ اہل عرب کا جملہ ہے جسے ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان میں بہت مقبول بنایاتھا ،اس جملے کے کئی مفہوم نکلتے ہیں،ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ سیاست دانوں سے دل نہیں لگایا جا سکتا، اگر سیاست کے سینے میں دل نہیں تو سیاست دانوں کے سینے میں دل کہاں؟ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیاست دا ں اور ارباب اقتدار عوام سے دل نہیں لگاتے ہیں بلکہ وقتی مفاد کی خاطر ان سے قربت کا اظہار کرتے ہیں ۔

ہندوستان سمیت پوری دنیا کے موجودہ سیاسی منظر نامہ کا جائزہ لیاجائے تو یہی بات نظر آتی ہے کہ ارباب اقتدار او راہل سیاست کا عوام سے تعلق وقتی اور خود غرضی پر مبنی ہوتاہے ،پرکشش جملے کا استعمال کرکے ،لالی پاپ دیکھاکر ،لمبے چوڑے وعدے کرکے ،سنہرے خواب دیکھاکر ،مذہب کا واسطہ دیکر ،جذبات سے کھیل کر اہل سیاست ووٹ لیتے ہیں،اقتدار کی کرسیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں ،اس کے بعد وہ وہ عوام اور غریبوں کے مفاد میں کام کرنے کے بجائے ان کا استحصال شروع کردیتے ہیں،ان کے مسائل کی جانب توجہ دینے کے بجائے امیروں پر نوزاشات کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں ،انڈسٹریز کے مالک اور بڑے تاجروں پر ان کی خصوصی نظر رہتی ہے ،انہیں فائدہ پہونچانے کیلئے غریبوں کو بھی بخشا نہیں جاتاہے ،انڈسٹریز قائم کرنے ،فیکٹری لگانے ،تجارت بڑھانے اور کمپنیاں شروع کرنے کے نام پر غریبوں کی اراضی سلب کرلی جاتی ہیں ،ان کا محلہ خالی کرادیا جاتاہے ،کبھی کبھی بستیاں اجاڑ دی جاتی ہیں ،امیروں کو وہاں فیکٹریاں لگانے ،انڈسٹریز قائم کا موقع دیا جاتاہے ۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ امیروں کی امیری بڑھتی جاتی ہے ،عام عوام غربت کی دلد ل میں پھنس جاتی ہے ،بے بس اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے ، پریشانیاں او ر تکالیف ان کا مقدر بن جاتی ہے ،ہر قدم پر وہ کسی کی مدد کی ضرورت محسوس کرتی ہے ،ان مشکل ترین ایام میں جب کوئی ان کی مدد کو پہونچتاہے ،ان کے علاج ومعالجہ کیلئے کوئی بندو بست کرتاہے ،ان کے کھانے پینے کا کوئی نظم کرتاہے ،بھوک سے تڑپتے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے کوئی کچھ اناج دیکر جاتاہے تو وہ ان کیلئے مسیحابن جاتاہے ،عوام ان کے احسان تلے دب جاتی ہے ،انہیں ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے ۔غریبوں کے ووٹ سے اقتدار تک پہونچنے والے سیاست داں عموما یہی کرتے ہیں،پہلے انہیں لالچ دلاتے ہیں،چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں،شیش محل کا خو اب دیکھاتے ہیں،مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں،جب اقتدار اور حکومت مل جاتی ہے تو ان کی ساری توجہ انڈسٹریزکے قیام ،فیکٹریاں لگانے اور تاجروں کو فائدہ پہونچانے پر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی دو تہائی دولت صرف ایک فیصدآبادی کے ہاتھ میں ہے جبکہ ایک تہائی دولت میں پوری دنیا کی شراکت ہے ۔غربت ،مشکلات او ر پریشانیوں سے دوچار ان غریب عوام کو جب حکومت تھوڑی سے راحت پہونچادیتی ہے ،بے بسی کے عالم میں کوئی سرکاری ریلیف پہونچتی ہے وہ ان کیلئے نئی زندگی اور نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوتی ہے ،تکلیف ومصائب کے وقت اس طرح کی مدد کرنے والے ان کی نظر میں سب سے خیر خواہ ہوتے ہیں ،ان غریبوں کو ہر گزیہ یاد نہیں رہتاہے کہ ہماری اس غربت ،تنگ دستی اور پریشانی کیلئے یہی سیاست داں ذمہ دار ہیں جس نے ہم سے ہماری جائید اد چھین لی تھی ،ہماری دولت پر قبضہ کرلیاتھا،ٹیکس بڑھاکر ہماری آمدنی کا اکثر حکومت کے فنڈ میں شامل کرلیاتھا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ارباب اقتدار اور ماہرین سیاست عوام کو اپنے چنگل میں پھنسالیتے ہیں،انہیں اپنے احسان تلے دباکر پھر ان کے ووٹوں سے حکومت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔استحصال زدہ عوام کے پاس اس کے علاو ہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتاہے، یوں ارباب اقتدار عوامی استحصال کی پالیسی میں مسلسل کامیاب ہوتے جاتے ہیں اوربیچاری عوام غربت کے دلدل میں پھنستی جاتی ہے ،پریشانیوں کا شکار ہوتی رہتی ہے ، آئے دن اس کا سیاسی استحصال ہوتارہتاہے اسی کو کہاجاتاہے کہ غریبوں کو مرنے دو(Let Poor People Die ) راقم الحروف کا اسی موضوع پر ایک تفصیلی مضمون بھی آچکاہے جس میں اس بات کی مکمل وضاحت ہے کہ ارباب اقتدار کس طرح غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔

ہندوستان کی تصویراس سے بھی زیادہ بدتر ہے ،یہاں مذکورہ امور کے ساتھ مذہبی اور قومی عصبیت بھی حاوی ہوتی ہے ،اہل سیاست ایک خاص طبقہ اور کمیونٹی کے تاجروں کو آگے بڑھاتے ہیں، ایسی حکمت تیار کرتے ہیں جسے مخصو ص طبقہ کو تجارت میں شدید نقصان کا سامناکرناپڑتاہے بلکہ ان کی انڈسٹری بھی تھپ پڑجاتی ہے ،اس کی ایک مثال بیف پر پابندی ہے ،ہندوستان میں گوشت ،چمڑے کی تجارت سے زیادہ تر مسلمان جڑے ہوئے ہیں،حکومت نے بیف کی دکانوں پر پابندی عائد کردی ،نئی دکانیں کھولنے کی مشکل شرطیں لگادی جس کی تکمیل ایک عام آدمی کیلئے ناممکن کے درجے میں ہے ،نتیجہ کے طور پر گوشت کے تاجرمعاشی طور پر انتہائی پسماند ہ ہوتے جارہے ہیں،ان کا کاروبار تھپ پڑا ہے ، یہاں بھی مذہب کو بنیاد بنایاگیا ،گوشت کے بڑے غیر مسلم تاجروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاگیا نہ جیسے سب سے بڑی کمپنی عربین ایکسپورٹ پرائیوٹ لمٹیڈ کے مالک سنیل کپور ہیں۔ایم کے آر فروزن ایکسپورٹ کے مالک مسٹر مدن ابوٹ ہیں،پی ایم ایل انڈسٹریز کے مالک مسٹر اے ایس بندارا ہیںاور بھی کئی کمپنیاں ہیں جنہیں کچھ نہیں کیا گیا ،صرف متوسطہ طبقہ کے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا جن کا انحصارہی ان سب چیزوں پر تھا۔نوٹ بندی کے بعد متوسط طبقہ کو لاحق پریشانیاںاب تک ختم نہیں ہورہی ہیں ،مارکیٹ کی صورت حال بہت خراب ہوچکی ہے ،معیشت کی سطح میں گرواٹ آتی جارہی ہے ،جی ایس ٹی نے رہی سہی کمر توڑ دی ہے ،تجزیہ اور سروے بتاتاہے کہ مودی سرکار کی ان پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں اور متوسط طبقہ کے تاجروں کو شدید نقصان پہونچاہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ عوام اور غریبوں کا استحصال کئے جانے کا یہ سلسلہ بہت قدیم ہے ،ماضی سے لیکر اب تک یہی ہوتاچلاآرہاہے،فرعون ونمرود کے زمانے میں بھی عوام کا استحصال کیا گیا ،بیسوی صدی میں اشتراکی نظام کے ذریعہ بھی عوام کو استحصال کا سامنا کرناپڑا اور اب جمہوریت کے نام پر بھی عوام کے استحصال کا سلسلہ جاری ہے، بعض دفعہ عدلیہ پر بھی حاوی ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ،آزادعدلیہ ہونے کے باجود ججز پر دباﺅ ڈالنے کی پلاننگ ہوتی ہے لیکن اس جمہوریت میں اتنی طاقت ہے کہ عوام خود کو استعمال ہونے سے روک سکتی ہے ،اپنے آپ کو دوسرے کے استحصال کرنے سے بچا سکتی ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ عوام او رسیاست دانوں کے درمیان کا رشتہ عملی ہو،عوام اپنے حکمرانوں کا جائزہ لیتی ر ہے ،جمہوریت اور سیکولرزم کے تقاضوں پر عمل کرے ،حق جمہوریت کا خوب استعمال کرے ،خو اب دیکھانے والوں کے عمل و کردار کا جائزہ لے ۔دوسرے لفظوں میں اس کی تعبیر ہم جمہوری بیداری سے کرتے ہیں ،عوا م کا جاگنا ،ان کا بیدارہونا اور سیاسی شعور پیدکرنا ضروری ہے ۔جمہوری نظام عوام کو اپنی پسند ناپسند کا حکمراں منتخب کرنے کا حق دیتاہے ،انگلی کی ایک جنبش پر ارباب اقتدار کو بدلاجاسکتاہے ۔ووٹ کا صحیح استعمال کرکے غریبوں کا خون چوسنے والے حکمرانوں کو بآسانی اقتدار سے بے دخل کیا جاسکتاہے ۔جمہوریت میں ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے ،ووٹ کی طاقت ہوتی ہے ،اسی کی بنیاد پر حکمرانوں کے اقتدار کا فیصلہ ہوتاہے ،ایک مرتبہ اگرکسی لیڈر کے انتخاب میں غلطی ہوجاتی ہے تو آئندہ انتخابات میں اسے سدھارنے اور زمینی سطح پر کام کرنے والے ،غریبوں کے مسائل حل کرنے والے سیاست داں کو اقتدار کی کرسی تک پہونچانے کا ہمارے پاس حق ہوتاہے ۔

ملک اور ریاست کی ضرورت انسان کواس وجہ سے پیش آتی ہے کہ انسانی معاشرے کو ایسا سیاسی بندوست میسر ہو جائے جو جنگل کے قانون کا متبادل ہو۔ وہ معاشرے کو کسی نظم کے تابع کر دے۔ ایسا نظام جو عام لوگوں کے جان و مال کو تحفظ دے سکے۔ جہاں طاقت ور کمزور کے حقوق غصب نہ کرے۔ جہاں ایک با صلاحیت فرد کو ایسے مواقع فراہم ہوں جو اس کے سماجی ارتقا کا سبب بنے ۔اس نظام کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی ارباب اقتدار کی ذمہ دار ی ہے ۔عوام کو صرف یہ دیکھناہے کہ سیاست دانوں کی طویل فہرست میں کو ن ایماندار ہے اور کوئی خیانت دار ہے ،کس کے پاس آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت ہے ،کون عوام کو قانون کی حکمرانی دے سکتا ہے۔کس کی نظر میں عوامی مسائل ترجیحی ایجنڈہ کے طور پر شامل ہوتاہے ۔ کون ہے جو ان کے جان و مال کے تحفظ کا اہتمام کر سکتا ہے۔ کون ہے جو ان کے لیے ایسے مواقع فراہم کرسکے جس کی بنیاد پر وہ سماج میں بہتر مقام حاصل کرسکے ،اپنی معاشی صورت حال کو بہتر بناسکے ۔کس سیاست داں کے پاس یہ صلاحیت ہے جو ان کی آواز پر لبیک کہ سکے ،کس کے اندر انسانی ہمدردی اور غریبوں سے محبت کا جذبہ موجزن ہے ،کو ن ان کے حقوق کا ضامن بن سکتاہے ۔ کون انہیں امن واسلامتی کی ریاست دے سکتاہے ۔داخلی وخارجی فتنوں سے محفوظ رکھ سکتاہے ،بیرونی حملہ آوروں سے انہیں بچا سکتاہے ۔

عوام کسی سیاست داں کو مذکورہ امیدوں کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے ،انہیں اقتدار تک پہونچاتی ہے ،ان کے ہاتھوں میں اپنا مستقبل سونپ دیتی ہے ،ملک کی باگ دور اس کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے لیکن و ہ شخص عوامی امیدوں پر کھڑ انہیں اتر تاہے ،سماجی ،معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہے ،انسانی ارتقاءکے مشن میں کامیاب نہیں ہوپارہاہے ،بھائی چارہ کا ماحول قائم نہیں رکھ پاتاہے ،آئین کی بالادستی نہیں رہتی ہے ،عوام اور فرد کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے ،غریبوں کو مزید کچلا جاتاہے ،امیروں کو فائدہ پہونچایاجاتاہے ،تمام شہریوں کو آئین میں دیئے گئے حقوق مساوات ،انصاف ،آزادی اور بھائی چارہ دینے میں ناکام ثابت ہوتاہے تو ہمیں بد دل ،مایوس اور ان کے ظلم پر قناعت کرلینے کے بجائے اپنے اندر جمہوری بیداری لانے کی ضرورت ہے ،ووٹ کا صحیح استعمال کرنے کا حوصلہ پیداکرناہے او ر جمہوری انداز میں انگلی کی ایک جنبش پر ایسے حکمرانوں کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک چلانی ہے ۔

2019 میں اب زیادہ دن نہیں رہ گئے ہیں،سیاست دانوں نے انتخاب لڑنے کی تیاری شروع کردی ہے ،ہر طرف ہنگامہ برپا ہوگیا ،جن سیاست دانوں نے چار سالوں تک ہمارے گھر پر دستک نہیں دی تھی آج پھر ان کی آہٹ سنائی دی رہی ہے ،جن لوگوں نے ملک میں امن وامان قائم رکھنے کا وعدہ کیاتھا ان کے دور میں خو ن خرابہ ہوا،ہجومی تشد د کے نام پر بے گناہوں کا قتل ہوا ،گﺅ رکشا کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں پر حملہ کیاگیا،لوجہاد کا شوشہ چھیڑ کر ملک کے بھائی چارہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ،نوٹ بندی کرکے متوسط طبقہ کے تاجروں کو پریشان کیاگیا،خاص کمیونٹی کے لوگوں کو فائدہ پہونچایاگیا،جی ایس ٹی نافذ کرکے رہی سہی کمر بھی توڑ دی گئی ،چھوٹے اور متوسط طبقہ کے تاجر معاشی طور پر کنگال ہوتے جارہے ہیں،مارکیٹ کی صورت حال بدتر بن چکی ہے ،ملک کی یہ تصویر بنانے والے ایک مرتبہ پھر ہم سے ووٹ مانگنے آئیں گے اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں ۔ہم ہندوستان کی تصویر اسی طرح دیکھنا چاہتے ہیں یا اس کو بدلنا چاہتے ہیں ۔

جمہوریت میں ہمارے پاس اختیار ہے ،طاقت ہے اور اس کو برقرار رکھنا ضروری ہے ،آج ملک میں جو کچھ ہورہاہے وہ جمہوری مزاج کے خلاف ہے ،جمہوریت کے تقاضوں کی دھجیاں اڑانے کے مترداف ہے ،آمریت کی علامت ہے ،مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی سرکار کا آمرانہ روش پر گامز ن ہے۔

(مضمون نگار معروف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home