آزادی کی جنگ اور جمہوری نظام کا مقصد؟

ڈاکٹر محمد منظور عالم

ہندوستان کی آزادی کسی ایک طبقہ یا گروہ کی مرہون منت نہیں ہے۔برطانوی نظام سے آزادی دلانے میں یہاں کے تمام مذاہب،قبائل اور گروہوں کی قربانیاں شامل تھیں۔برطانوی حکومت کے خلاف مذہب،ذات،علاقہ اور زبان سے بالاتر ہوکر تمام ہندوستانیوں نے اتحاد کا ثبو ت پیش کیاتھا۔سبھی نے برطانوی حکومت کے خلاف جدوحہد کی تھی۔میدان کارزار میں حصہ لیاتھا۔ان کے خلاف معرکہ آرائی کی تھی تب جاکر ملک آزاد ی کی دولت سے سرفراز ہوا۔غلامی کے طوق سے نجات ملی۔جمہوریت اور سیکولرزم پر مبنی ایک نظام اور دستور مرتب ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جنگ آزادی کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی۔یہاں کے شہریوں نے انگریزوں کے خلاف محاذ کیوں کھولاتھا۔انگریزوں سے اقتدار چھینے کا مقصد کیاتھا۔کیا انگریز ہندوستانی شہریوں کا قتل عام کررہے تھے۔کیا برطانوی اقتدار کے زیر اہتمام ہندوستانی شہری بھوک مررہے تھے؟ کیا انگریزی نظام میں مسلمانوں،دلتوں،آدی واسیوں،ہندوں،عیسائیوں،سکھوں،کسانوں اور دیگر طبقات کو ملازمت نہیں ملتی تھی۔کیاانہیں تعلیم سے محروم رکھاجاتاتھا؟ نہیں یہ سب کچھ تھا بلکہ انگریزی دورا قتدار میں کئی اعتبار سے ہندوستان نے ترقی بھی کی، ریلوے نظام کی شروعات ہوئی،کچھ نئے شہر آباد ہوئے۔ کئی تاریخی عمارتوں کی تعمیر ہوئی لیکن ان سب کے باوجود برٹش دور میں مساوات نہیں تھا،برابری کا فقدان تھا۔یکسانیت ناپید ہوچکی تھی۔ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان مراتب کے اعتبار سے ایک فاصلہ بنادیاگیاتھا۔ انگریزوں نے ہندوستانیوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھ رکھاتھا۔ آقا اور غلام والامسئلہ تھا۔اسی فکر،غلامی کی ذلت اور آزادی کے شوق نے بغیر کسی مذہبی،علاقائی،لسانی اور ذاتی تفریق کے تمام ہندوستانیوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔سبھوں نے بیک آواز ہوکر انگریزوں بھا رت چھوڑ و کا نعرہ دیا۔

طویل جہدو جہد،عظیم قربانی، معرکہ آرائی او ر جام شہادت نوش کرنے کے بعد تاریخ نے کروٹ لی۔ ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف جیت ملی۔ برطانوی اقتدار سے آزادی نصیب ہوئی۔ انگریز الٹے پاؤں پر جانے پر مجبور ہوئے۔ جدوجہد،عظیم ترین قربانیوں اور شہادتوں کے بعد ملی اس آزادی کا فائد ہ اٹھانے تمام عوام اور شہریوں کو اس حقدار بنانے کیلئے مجاہدین نے ایک نیا آئین مرتب کیا۔ ایک دستور بنا یا جس کا نام رکھا 147We The People Of India148 (ہم ہندوستان کے عوام ہیں)۔اس دستور میں تمام انسانوں کو یکساں حقوق دیئے گئے۔تمام شہریوں کو برابری کا درجہ دیاگیا۔ آقا اور غلام والی تفریق ختم کردی گئی۔اونچ نیچ کے نظام کو کالعدم قراردیاگیا تمام شہریوں کو آزادی،انصاف مساوات اورتحفظ کا یکساں حقدار قرار دیاگیا۔

یہ مقصد تھا آزادی کی جنگ ۔اس عظیم مشن کے حصول کیلئے ہندؤوں،دلتوں،مسلمانوں،آدی واسیوں،عیسائیوں،سکھوں،کسانوں،نوجوانوں،علماء،دانشوران،مذہبی رہنما اور طلبہ نے انگریزوں کے خلاف متحدہوکر جنگ چھیڑی تھی آج ایک مرتبہ پھر یہی آزادی اور برابری چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک مخصوص گروہ شہریوں کو حاصل مساوات کے خلاف سرگرم ہے۔ یہ گرو ہ انسانوں میں فرق مراتب اور اونچ نیچ کی لعنت کو داخل کرنے کیلئے جدوجہد کررہاہے۔ تمام شہریوں کو آئینی اعتبار سے حاصل یکسانیت،آزادی اور برابری اسے برداشت نہیں ہورہی ہے۔ اس گرو ہ نے اس مقصد کی تکمیل کیلئے آئین تک کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنارکھاہے۔اس گروہ کا یہ منصوبہ کوئی نیا نہیں ہے۔بلکہ شروع سے یہ گروہ انسانی تفریق اور اونچ نیچ کا قائل ہے یہی وجہ ہے کہ جب یہاں کے تمام شہری یکسانیت او ر برابری کے حصول کیلئے انگریزوں کے خلاف بیک آواز ہوکر بر سر پیکار تھے یہ طبقہ ان سے الگ ہوکر انگریزوں کے ساتھ شامل ہوگیاتھا۔ آزادی کی لڑائی لڑنے کے بجائے جنگ آزادی کے مجاہدین کی جاسوسی کرنے میں مصروف تھا۔ آزادی کی شمع جلانے والوں کا تعاون کرنے کے بجائے ان کے منصوبوں کوناکام بنانے پر اس کی پوری توجہ مصروف تھی۔ یہ گروہ اس وقت کامیاب نہیں ہوسکا۔انگریزوں کو اقتدار چھوڑکر جانا پڑا۔آئین سازی اوردستور کی تشکیل میں بھی یہ گروہ اپنا فیصلہ نافذ کرنے میں ناکام رہا۔لیکن اب ایک مرتبہ پھر یہ گروہ سرگرم ہوگیاہے۔ نئے انداز اور نئے طریقے سے آئین کی تحریف اور شہریوں کو حاصل مساوات کا حق چھیننے کیلئے مختلف طرح کے ہتکھنڈے اپنانے کی پالیسی پر عمل پیراہے۔

ہم جس گروہ کی بات کررہے وہ سنگھ پریوار ہے۔ برہمنواد کا نظریہ ہے جس کے خودساختہ دستور میں انسانوں کو یکسانیت حاصل نہیں ہے۔ جس کی کتاب میں انسانوں کے درمیان تفریق کی گئی ہے۔ان کے کاموں کو بانٹاگیا ہے۔کسی کو اونچا اور کسی کو نیچا دیکھاگیاہے۔دلتوں،آدی واسیوں،مسلمانوں،عیسائیوں،سکھوں اور دیگر کمیونٹی کے افراد کی حیثیت اس کے نزدیک غلام کی ہے۔

برہمنواد نظریہ کو بڑھاواد دینے کی کوششیں مسلسل جاری ہے۔حالیہ پانچ برسوں میں یہ جدوجہد اور تیز ہوگئی ہے۔اس مشن اور مقصد کی تکمیل کیلئے آر ایس ایس ایک طویل مدتی منصوبہ پر کا م کررہی ہے۔ بی جے پی کو سیاست میں فعال بنانے کے بعد آر ایس ایس آئین میں تحریف اور تبدیلی کرکے برہمنواد کو تھوپنے کیلئے مختلف محاذ پر کام کررہی ہے۔

ہندوستان میں برسوں سے مختلف مذاہب،مختلف ذات،مختلف تہذیب،مختلف کلچر،مختلف زبان علاقہ اور خطہ کے لوگ آباد ہیں لیکن ایک گروپ ان سب کو آپس میں الجھاکر اپناتابعد ار بنانا چاہتے ہیں۔ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد جو کچھ ہورہاہے اس سے سنگھ کا ایجنڈا اور نظریہ دنیا کے سامنے عیاں ہوگیاہے۔کہ ان کا اولین مقصد حکومت کرنا،اقتدار سنبھالنا اور ملک کے سیاسی جمہوری نظام کو مضبوط کرنا نہیں ہے نہ ہی عوام کی بہبودگی،ملک کی ترقی،انسانیت کی بہتری،غریبوں کی بھلائی،ضروت مندوں کی مدد میں کوئی دلچسپی ہے۔ان کی اصل دلچسپی اس کے ذریعہ آئین تبدیل کرکے برہمنواد کے نظام کو تھوپنا ہے۔اس مقصد کی تکمیل کیلئے سیاسی پاور اور اقتدار ضرروی ہے اس لئے ان کی پوری توجہ اسی پر ہے۔گذشتہ پانچ سالوں کے دوران اس نہج پر مسلسل کام کیاگیاہے اور اب اس سلسلہ کو آگے بڑھانے اور حتمی شکل دینے کیلئے 2019 کی جنگ جیتنے کی کوشش کی جارہی ہے۔پانچ سالہ ریکاڈ سب کے سامنے ہے۔ان پانچ سالوں میں بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بھی وعدہ صحیح سے پورا نہیں کیاہے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں جو منی فیسٹو جاری کیاتھا اس میں کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوسکاہے۔رام مندرکی تعمیر،کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور اس جیسے کئی ایجنڈو ں کو شامل کرکے مذہبی بنیاد پر بی جے پی نے ووٹ حاصل کیا لیکن اب انہیں بھی لالی پاب دیکھادیاگیاہے۔ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کے پاس پالیسی ساز افراد نہیں ہیں۔سنگھ میں ذہین اور دانشوروں کا فقدان ہے بلکہ ان کی ساری توجہ ملک کا آئین تبدیل کرکے منو اسمرتی کے نظام کو نافذکرنے پر ہے۔مساوات اور انسانوں کے درمیان برابری سنگھ اور برہمنواد کی بنیاد کے خلاف ہے۔

گذشتہ پانچ سالوں میں ریپ کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔ مندروں کے بابا اور بی جے پی لیڈران بڑی تعداد میں ملوث پائے گئے ہیں۔ غنڈہ گردی،فساد اور لوٹ مار اب عام مسئلہ بن گیا ہے۔جنگل راج اتنا بڑھ گیا ہے کہ خود پولس ہندوستان میں محفوظ نہیں ہے۔کسانوں کو مکمل طور پر نظر انداز کردیاگیا ہے۔ اقلیتوں،دلتوں،آدی واسیوں اور پسماندہ طبقات کو حکومت نے مزید مسائل میں الجھادیاہے۔تعلیم کا معیار گھٹ چکاہے۔تعلیمی بجٹ بھی اس سرکار میں مسلسل کم کردیاگیاہے۔ آئینی اداروں میں مداخلت کا معاملہ سامنے آیاہے۔ان سب کے پیچھے آر ایس ایس کارفرما ہے۔عوام کو الجھا کر،ان کا جذباتی استحصال کرکے وہ ایک مرتبہ پھر بی جے پی کو اقتدار سونپا ان کا منصوبہ ہے تاکہ آئین تبدیل کرنے کے عمل میں تعاون مل سکے۔ملک کے نظام تبدیل کرکے یکسانیت اور مساوات کا خاتمہ کردیا جائے۔

یہ موقع آزمائش،امتحان اور معاملے کی گہرائی تک پہونچنے کا ہے۔ایسے طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہونے اور ان سے مقابلہ کرنے کا ہے۔ملک کے کسانوں،دلتوں،آدی واسیوں،مسلمانوں،اقلیتوں،صحافیوں،نوجوانوں،طلبہ،علماء،دانشوران،مذہبی لیڈران کے سامنے یہ سوال بھی ہے کہ کیایہ سب اپنے آبا? اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کریں گے،ان کے خلاف میدان میں نہیں آئیں گے۔ملک کو تباہی سے بچانے کیلئے ایسے لوگوں کا راستہ نہیں روکیں گے جو ہمیں ایک مرتبہ پھر غلام بنانے اور مساوات سے محروم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

تمام طبقات کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جمہوریت کیا چیز ہوتی ہے،جمہوری عمل کے تقاضے کیا ہوتے ہیں اور آئین سازی کے دوران آمریت،سلیکٹیو،بادشاہت جیسے نظامہائے مملکت پر جمہوری پارلیمانی نظام کو کیوں ترجیح دیا گیا۔آئین کے معماروں اور ملک کے دانشوران نے جمہوری نظام کی تشکیل کا فیصلہ کیوں کیا اور آج جمہوریت کتنی باقی ہے۔ہمارے ملک میں جمہوروں اصولوں کی پاسدار ی کی جارہی ہے یا نہیں۔اگر یہ جمہوری ختم ہوجاتی ہے تو پھر ہماری کیا حیثیت ہوگی؟ یہ سارے وہ سولات ہے جس کے بارے میں سوچنا،غورکرنا ضروری ہے۔اگر یہ جمہوری نظام ختم ہوجاتاہے۔ آئین تبدیل کردیاجاتاہے تو صر ف ہندوستان تباہ وبرباد نہیں ہوگا۔آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریکی میں تبدیل نہیں ہوجائے گابلکہ ہمارے آباؤاجداد اور مجاہدین آزادی کی ساری جدوجہد بھی رائیگاں ہوجائیں گے اس لئے ان کے مشن کو قائم رکھنے۔ان کی قربانیوں کا فائدہ اٹھانے،ملک کے مستقبل کو روشن بنانے اور آنے والی نسلوں کی بہتر ی کیلئے جمہوری نظام کا برقرار ررہنا اوراس کے تقاضوں پر عمل کرنا ضروری ہے اور ان طاقتوں اور سیاست دانوں کو خلاف لڑنا وقت کا اولین تقاضاہے جو جمہوری نظام پر حملہ آور ہیں اور اسے ختم کرنے کی شب وروز کوشش کررہے ہیں۔

یہی جمہوری نظام عوام کو 2019 میں ایک مرتبہ پھر یہ موقع فراہم کررہاہے کہ وہ اپنی دانشمندی ،عقل وفراست ،صحیح سوچ اور جذباتیت سے دور ہوکر نفرت کی آندھیوں کا مقابلہ کرنے ،جمہوریت کو بچانے اور ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرے ۔ اگر گونگے ،بہرے بنکر اور جذبات میں آکر اپنے ووٹ کا ہم نے استعمال کیا تو ملک دستوری نظام ایک ایسے نتیجے پر پہونچ جائے گا جس میں کف افسوس ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا اور یہ ایساافسوس ہوگا جس کا کوئی فائد ہ نہیں ملے گا ۔جمہوری نظام ہمیشہ عقل ،فراست ،سمجھداری ،دانشمندی ،سو چ وفکر مستقبل کے خطرات اور خدشات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے کا تقاضا کرتاہے۔

(مضمون نگار آ ل انڈیاملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home