اقلیتیں اور کمزور طبقات کیا موجودہ تناظر میں کوئی سبق حاصل کریں گی؟
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
2017 کے اترپردیش اسمبلی انتخاب کا تجزیہ مختلف زاویوں سے مختلف فکر کی نمائندگی کرنے والے افراد، فکری اور سیاسی تنظیموں، مسلمانوں اور غیرمسلموں، دلتوں، آدی واسیوں اور اقلیتوں کی طرف سے جاری ہے۔ ان سبھی تجزیوں میں جو بات مشترک طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ نہ مسلمانوں میں اتحاد تھا، نہ سیکولر سوچ رکھنے والے حضرات میں، نہ دلتوں، نہ آدی واسیوں ودیگر اقلیتوں میں کہ ملک اور دستور کے تحفظ کے لیے جو نظریے دیے جا رہے تھے اس کی روشنی میں کہیں اتحاد نظر نہیں آیا لیکن ہر ایک نے دہائی دی کہ ہمارے انتشار کی وجہ سے سیکولر قوتیں ناکام ہوئیں اور بی جے پی مکمل طور پر کامیاب ہوئی اور ایک ریکارڈ بھی بنایا۔ اس بات کو مسترد تو نہیں کیا جا سکتا کہ ای وی ایم مشین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے تو عوام کے اعتماد کے لیے ضروری تھا کہ اس کی جیوڈیشیل انکوائری ہونی چاہیے تھی جب تک وہ انکار کرتے رہیں گے اس وقت تک مجبوراً فیصلے کو مانا جائے گا لیکن اعتماد بحال نہیں ہو سکتا اس کے نتیجہ میں جمہوریت کی جڑ کمزور ہوتی چلی جائے گی۔
یہ بات وہ سبھی دانشوران جو سیاسی بھی ہیں اور غیرسیاسی بھی اس بات کو صاف انداز میں کہتے اور لکھتے رہے ہیں، تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ بھی کہ بی جے پی، آر ایس ایس کی پلاننگ کو پایۂ تکمیل تک پہنچا رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواہ وزیراعظم ہوں، وزیر داخلہ ہوں یا اہم وزراء جو مرکز میں ہیں وہ آر ایس ایس کے ٹاپ کیڈر ہیں، جن کی ٹریننگ ہی آر ایس ایس کے نظریہ کو عملی طور پر نافذ کرانا ہے تو پھر یہ بات ماہرین سیاست دل بہلانے کے لیے لکھتے اور کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے پلان کو بی جے پی تنفیذ کر رہی ہے۔ یہ لازم وملزوم ہے کہ جہاں کا خمیر ہوتا ہے اسی کے لیے کام کیا جاتا ہے اور اس خمیر کی پرورش آر ایس ایس کی مٹی اور پانی سے ہوئی ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ آئین ہند کے دیباچہ کے مطابق جہاں برابری، بھائی چارگی اور انصاف پر زور ڈالا گیا ہے اس کی روشنی میں دستور کو مضبوط کرنے، ملک کو آئیڈیل شکل میں بڑھانے جہاں رنگ ونسل، ذات پات، اونچ نیچ اور سب انسان کی بھلائی کو پروان چڑھایا جائے گا، یہ ناممکن ہے۔ انصاف اور انصاف کے جتنے بھی ذرائع ہیں اس کے سربراہ کا حکومت کی طرف جھکنا ایک فطری حصہ بن جاتا ہے، کچھ مستثنیٰ ہو سکتے ہیں اگر کچھ مستثنیٰ ہیں تو انہیں سچائی کے لیے بڑی قربانی دینا پڑے گی۔ کل یگ میں ست یگ کی بات ایسے ہی ہے کہ ریگستان میں پانی کی نہریں بہنے کی بات کی جائے۔ جو آفیسر بھی سچ بولنے کی جرأت کرتے ہیں ان کے لیے بھی جیل کی کوٹھری مختلف الزامات کے تحت مقدر بنا دی جاتی ہے۔ کیا ہم واضح طور پر نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آر ایس ایس کے کیڈر تقریباً ہر ریاست میں گورنر ہیں اور جہاں بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ ہیں وہ بھی آر ایس ایس کے کیڈر رہے ہیں۔ جس طرح کی انہیں تعلیم اور منواسمرتی کو ایک خاص شکل میں جدید زمانے میں نئی تکنیک کے ساتھ نافذ کرنے کی تربیت دی گئی ہے کیا وہ اس سے الگ ہو سکیں گے۔ ابھی جو پانچ ریاستوں کا الیکشن ہوا اس میں حکومت سازی کے لیے یوپی اور اتراکھنڈ میں زبردست اکثریت بی جے پی کی تھی۔ یہ ان کا حق تھا کہ وہ جس کو بھی چاہیں وزیراعلیٰ بنائیں۔ لیکن کیا گوا میں گورنر بی جے پی اور آر ایس ایس کے نہیں ہوتے تو کیا بی جے پی کی وہاں حکومت بنتی۔ یہ بات کہنا غلط ہے کہ حکومت بنانے سے پہلے ہی کانگریس بکھر گئی بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ دستور کی بنیاد پر جو روایت قائم تھی اس کے برعکس گورنر نے بی جے پی کو دعوت دی اور جو سیاسی گراوٹ، اخلاقی طور پر سیاسی لیڈروں میں زیادہ پائی جاتی ہے نے خرید وفروخت کے بازار کو گرم کیا، منی پور کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔
2017 میں دہلی میونسپل کارپوریشن کا الیکشن ہو رہا ہے اس کے رنگ ڈھنگ کو دیکھ کر صاف محسوس ہو رہا ہے کہ نہ تو سیکولر پارٹیوں نے کوئی سبق لیا ہے اور نہ مسلمانوں نے کوئی سبق لینے کی کوشش کی ہے۔ وہ تنظیمیں جو اتحاد کی باتیں کرتی ہیں انہوں نے بھی اپنی اپنی پسند کی جو سیاسی پارٹیاں بنائی ہیں انہیں پسند کر رہی ہیں، الیکشن میں کود پڑی ہیں کہاں ہے اتحاد؟ ہر ایک کہتا ہے کہ ضرورت کے تحت ہم میدان میں آرہے ہیں، چونکہ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ بدعنوان ہیں، نالائق ہیں، اچھے کام نہیں کیے ہیں اس لیے ہم اپنی پاکدامنی، ایمانداری اور حوصلہ مندی کو ثابت کرنے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ووٹرس اتنا ذہین، اتنی باریک بینی اپنے اندر پاتا ہے کہ اپنے ووٹ کو اس ترازو میں تول کر دے گا یا ان کا ووٹ منتشر ہو گا۔ منتشر ہونا تو تقریباً طے ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ووٹ بٹے گا تو وہ لوگ جو حوصلے کے ساتھ اتر رہے ہیں ان کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ امیدوار کو اتارنے سے پہلے لوگوں کے درمیان اتحاد کی راہ تلاش کی جاتی کہ اس چھوٹے میونسپل کارپوریشن کا جو جغرافیائی دائرہ کار ہے اگر اس کے اندر بھی اپنے انتشار کی شدت اور کیفیت بھی پیدا ہو چکی ہے یا اچھے لوگوں کو نہیں لا سکتے تو 2019 جو پوری قوت سے سامنے آنے والا ہے، اس کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
صورتحال یہ ہے کہ ملک کے 14 صوبوں میں آر ایس ایس کیڈر کے لوگ گورنر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان میں یوپی میں رام نائیک، مغربی بنگال میں کیسری ناتھ ترپاتھی، راجستھان میں کلیان سنگھ، مہاراشٹر اور تمل ناڈو میں سی ودیّا ساگرراؤ، تری پورہ میں تھتاگت رائے، گجرات میں اوم پرکاش کوہلی، انڈومان اینڈ نکوبار میں پروفیسر جگدیش مکھی، اروناچل پردیش میں بنواری لال پروہت، چنڈی گڑھ میں پروفیسر کیپٹن سنگھ سولنکی، چھتیس گڑھ میں بلرام جی داس ٹنڈن، مدھیہ پردیش میں اوم پرکاش کوہلی (اضافی چارج)، میگھالیہ میں بنواری لال پروہت، پنجاب میں وی پی سنگھ بدنور اور اتراکھنڈ میں ڈاکٹر کرشن کانت پال ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ریاستوں کی ہیں جہاں 13 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ آر ایس ایس کیڈر کے ہیں، ان میں اروناچل پردیش میں پیماکھنڈو، آسام میں سربنداسونوال، چھتیس گڑھ میں ڈاکٹر رمن سنگھ، گوا میں منوہر پاریکر، گجرات میں وجے بھائی آرروپانی، ہریانہ میں منوہر لال کھٹر، جھارکھنڈ میں رگھوبیر داس، مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ، مہاراشٹر میں دیویندرفنڈوس، ناگالینڈ میں ٹی آر زیلانگ، راجستھان میں وسندھرا راجے سندھیا، اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ اور اتراکھنڈ میں ترویندر سنگھ راوت ہیں، جبکہ یوپی حکومت نے ایڈوکیٹ جنرل ششی پرکاش سنگھ کو بنایا ہے جو آر ایس ایس کے اہم آدمی ہیں۔
آر ایس ایس جو 1925 میں مسلم دشمنی کی بنیاد پر قائم ہوئی، اس نے ہر میدان میں تحقیق اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے علمی وعملی رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی کو اس طرح اختیار کیا کہ اپنے بیانات اور تقریروں میں ذومعنی الفاظ استعمال کرتے رہے اور ملک کے دانشور خواہ وہ کسی مذہب، فرقے، عقائد یا مغربی افکار سے متاثر ہوں، وہ شروع سے ہی ذو معنی نعروں میں الجھتے رہے اور ہندو انڈیا بنانے کی جو حکمت عملی آر ایس ایس نے بنائی وہ دھیر دھیرے ہندو معاشرے میں تقریباً بڑی تعداد بالخصوص نوجوانوں کو قبول ہونے لگی۔ کیا اس کے بعد بھی مسلمانوں اور سیکولر فورسیز کے دانشوروں کو کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک کو کہاں ڈھکیلا جا رہا ہے۔ اس وقت جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے ان کا سماجی سلوک، ان کے نوجوانوں کا قانون کو ہاتھ میں لینا، معصوم لوگوں کو بغیر قصور کے سزا دینا، پولیس کا ان سے خوفزدہ ہونا، گھروں میں گھس کر کون کیا پہنتا ہے اس کو بھی ہراساں کرنا، ان کی غلطی کو میڈیا کے ذریعہ صحیح طور سے پیش کرنا اور ان کی بڑی غلطی کو نظرانداز کرنا، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پارلیمنٹرین کے ذریعہ گالی گلوج کرنا، ایک کمیونٹی کے خلاف زہرپھیلانا اور ان کی روزی روٹی کو چھیننا، ان کے تعلیمی مقاصد کو پورا نہ ہونے دینا، بھید بھاؤ کو بڑھاوا دینا اور فرقہ پرست تنظیموں کو پوری طرح قانون سے بالاتر رکھنا، یہ سورج کی روشنی سے زیادہ تابناکی سے پیش کر رہا ہے۔ مگر نہ مسلمان، نہ کمزور طبقات اور نہ اقلیتیں اس بات کو محسوس کر رہی ہیں کہ دھیرے دھیرے دستور کے جو اعلیٰ وارفع مقاصد دیباچہ کی شکل میں اور آئین ساز اسمبلی کی بحث کے ذریعہ اجاگر کیے گئے تھے وہ ایک خطرناک دور میں داخل ہو چکے ہیں۔
جو بھی اقلیت جمہوریت میں ہوتی ہے اس کی ضرورت ہے کہ وہ بصیرت کی نگاہ سے دیکھے، اپنی بصارت سے سمجھنے کی کوشش کرے، فراست سے ہر طرح کی چال کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اگر بصیرت وفراست سے دور ہو گئے تو ہم صرف یا تو خوابوں کی دنیا میں ہوں گے یا خوف کے عالم میں، کوئی فیصلہ مستحکم نہیں کر سکتے اور اس کا راز اس میں چھپا ہوا ہے کہ جہاں اپنے اندر استحکام پیدا ہو وہاں بنی نوع انساں کے کمزور طبقات جو دبے اور کچلے ہوتے ہیں سماجی طور سے ان کے مددگار بنیں اور ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ سماجی مین اسٹریم سے اگر ہم کٹے ہیں تو اپنی شناخت کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ ہمارا دستور اس بات پر زور ڈالتا ہے کہ آپ ملک کے برابر کے شہری ہیں اور ہر مواقع میں برابر کے حقدار ہیں۔ اگر خوف کی نفسیات میں اپنے حق کے لیے قانونی اور دستوری زبان میں اپنی آواز اٹھانے میں دیر کر دی تو جب ہم جاگیں گے اس وقت ماحول سازگار نہیں ہو گا اور نقارخانے میں طوطی کی آواز کہلائے گی۔ یوپی کا الیکشن اور اس کا نتیجہ یقینی طور پر جو انصاف پسند افراد ہیں اور دستور کی قدروں کو ماننے والے ہیں اور اسے گلے لگانے والے شہری ہیں انہیں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ دستور کی قدروں کو، اس کے افرمیٹیو ایکشن کو، جیوڈیشیری کو کیسے اور کس طرح نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ دستور اور عدلیہ کسی دباؤ کے بغیر عوام کے فائدے، عوام کے اصل مسئلہ کے حل کے لیے افرمیٹیو ایکشن کو مزید کیسے بڑھایا جائے۔ ضروری ہے کہ ہم دستور کی روشنی میں اپنی آواز اور اس کام کو انجام دینے کے لیے سوشل فیبرک سے وابستہ خواہ کسی بھی ذات، دھرم اور عقائد کے ماننے والے ہوں یا کسی خطۂ اور علاقے کے رہنے والے ہوں ان کے ساتھ مل کر اور اپنے ساتھ ملاکر کام کو بڑھائیں چونکہ وقت کسی کا بھی انتظار نہیں کرتا، وقت کی اپنی رفتار ہوتی ہے جس نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا اس کے افسوس کرنے سے گزرا ہوا وقت واپس نہیں آسکتا۔ ہم دعوت دیتے ہیں ملک کے ان سبھی شہریوں کو جو دستور کی قدروں اور اس کے دیباچہ پر یقین رکھتے ہیں، وہ عام انسانوں تک پہنچنے کی کوشش کریں، حقیقت کو پیش کریں اور خطرات کے اندیشے کو واضح طور پر عام شہریوں تک پہنچانے کی جدوجہد میں شامل ہوں۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home