سلسلہ10
دعوت میں زبان کا پہلو


. قرآن کریم میں دعوتی تقاضوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولوں نے ہمیشہ انسانی نفسیات کا پورا خیال رکھا ہے. قرآن مجید میں جہاں بھی نبیوں کے حالات بیان ہوئے ہیں، وہاں ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ انبیاء نے اپنی اپنی قوموں کے مزاج، نفسیات، سماجی رجحان اور ذہنی سطح کا پورا خیال رکھا ہے. اس کے علاوہ جس چیز کا سب سے زیادہ خیال رکھا گیا، وہ ہے لسانِ قوم، یعنی مدعو قوم کی زبان. سوال پیدا ہوتا ہے کہ زبان کیا ہے؟ اور دعوتی زندگی میں اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے جذبات و خیالات کو بیان کرنے کے لیے جن لفظوں کا سہارا لیا جاتا ہے، اُن لفظوں کا مجموعہ ہی زبان کہلاتا ہے. دعوتی زندگی میں اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ ہر زبان کے اندر مخصوص مٹھاس، چاشنی اور پیار محبت کا پہلو ہوتا ہے. کسی زبان کا ترجمہ کرکے بات تو سمجھائی جاسکتی ہے، لیکن اُس کے اندر چھپی محبت اور مٹھاس کو منتقل نہیں کیا جاسکتا. اسی لیے دعوتی زندگی میں ہر علاقے اور ہر قوم کی زبان کو اہمیت دی گئی ہے.

. اللہ تعالیٰ نے سابقہ قوموں کے بارے میں بتایا ہے کہ ہم نے ہر نبی کو اُس کی قوم کی زبان سکھا کر بھیجا ہے. اسی طرح اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ آپ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کو بھی فصیح و بلیغ زبان میں نازل کیا گیا ہے. رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے فصاحت و بلاغت اور زبانی جامعیت کی نعمت عطا فرمائی تھی. اسی کا نتیجہ تھا کہ عرب قرآن مجید کی چند آیات اور نبی کریم کی چند نصیحتوں کو سن کر بھی بہت متاثر ہوجاتے تھے

. موجودہ دور میں امت مسلمہ کو اگر اپنے حقیقی مقصد اور نصب العین کو اختیار کرنا ہے تو اس کے لیے زبان پر پوری توجہ مرکوز کرنی ہوگی. ورنہ ہم خود ہی کہیں گے اور خود ہی سمجھیں گے. دوسرا ہماری بات نہیں سمجھ سکے گا. اس کے لیے ہمیں متعلقہ علاقوں کی زبانوں کے ماہرین اور جدید وسائل و ذرائع استعمال کرکے ہر علاقائی زبان کے چند ایسے ماہرین پیدا کرنے ہوں گے، جو اُس زبان میں اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچا سکیں. اس کے بغیر دعوت کا حق ادا نہ کیا جاسکے گا. دو تین عالمی زبانوں یا قومی زبانوں میں مہارت سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا. کیوں کہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بسنے والے عوام بڑی عالمی زبانوں اور اپنے ملک کی سرکاری زبانوں سے واقف نہیں ہوتے. اُن کی اپنی علاقائی زبانیں ہوتی ہیں، اُسی کو وہ سمجھتے اور بولتے ہیں. اسی کو اپنے روزمرہ کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں. اس کے لیے ہمیں علاقائی زبانوں پر توجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے، جوکہ اب تک بہت کم ہوسکی ہے. اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم ایک اہم دعوتی تقاضے کو فراموش کر دیں گے ڈاکٹر محمد منظور عالم

چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی




Back   Home