سلسلہ11
داعی کا ایک مطلوبہ وصف
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دعوت کے بے شمار پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے. قرآن مجید کا مطالبہ ہے داعی کو اوصافِ حمیدہ کا حامل ہونا چاہیے. جیسے راست گوئی، عدل و انصاف، اخلاص، محبت، بھائی چارہ، ہمدردی، توکل، شرم و حیا، سخاوت، مہمان نوازی، حق سے محبت، باطل سے نفرت، شکر و احسان مندی، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے پیار، رحم و کرم، طہارت و پاکیزگی، صفائی ستھرائی وغیرہ. اس سلسلے میں قرآن مجید نے انسانی نفسیات کا پورا خیال رکھا ہے اور داعی کے اندر اُن اوصاف کا مطالبہ کیا ہے، جن سے دعوت کے تقاضوں کو بہت احسن طریقے سے پورا کیا جا سکے. قرآن مجید نے داعی سے جن اوصاف کا مطالبہ کیا ہے، ان میں سے ایک وصف خصوصی اہمیت کا حامل ہے. وہ یہ کہ داعی آخری درجے کا مخلص ہو. مدعو شخص یا مدعو قوم سے اس کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو. وہ مدعو کے شدید انکار اور کسی اذیت کے باوجود اُس سے مایوس نہ ہو. آخر وقت اُس کی اصلاح کی امید رکھے. جب داعی کے اندر یہ صفت پیدا ہوتی ہے تبھی وہ کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جو انبیاء کرام اور خاص کر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پیدا ہوئی تھی. جب آپ کو طائف میں لہولہان کر دیا گیا اور فرشتے نے طائف کو دو پہاڑوں کے درمیان کچلنے کی اجازت چاہی تو آپ نے منع فرما دیا اور یہ امید ظاہر کی کہ ان کی آنے والی نسلیں ایمان لائیں گی. چنانچہ آگے چل کر ایسا ہی ہوا. قرآن کریم میں انبیاء کرام کے اخلاص کی مثالیں بھری پڑی ہیں. ان سب مثالوں سے یہی سبق ملتا ہے کہ داعی کو سو فی صد مخلص ہونا چاہیے. تبھی اس کی دعوت مؤثر ہوسکتی ہے. سوال پیدا ہوتا ہے کہ داعی اپنے اندر کس طرح اخلاص پیدا کرسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانیت کی شدید ضرورتوں کا علم اور ایک مؤمن ہونے کی حیثیت سے اپنی بڑی ذمے داری کا احساس داعی کے اندر مطلوبہ اخلاص پیدا کرسکتا ہے. اس کے لیے ہمیں انسانیت کی ضروریات کو سمجھنا ہوگا. مدعو اقوام کی نفسیات، سماجی تقاضوں، ذہنی ساخت، تہذیبی سیاق اور اُن کی فکری سطح کو سمجھ کر حاملِ قرآن ہونے کی حیثیت سے اپنی بڑی ذمے داری کا ادراک کرنا ہوگا. ڈاکٹر محمد منظور عالم چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی |