سلسلہ 4
حکمت و دانائی: مومن کی گم شدہ میراث
اسلامی ذخیرے میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ حکمت و دانائی کو اپنا شیوہ بنائیں. سورہء جمعہ کی دوسری آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کو تین ذمے داریاں دے کر بھیجا ہے. تلاوتِ کتاب، تزکیہ اور حکمت کی تعلیم. یہ بات دوسرے مقامات پر بھی کہی گئی ہے، جس سے اس بات کی حد درجہ اہمیت کا علم ہوتا ہے یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر حکمت کسے کہتے ہیں؟ کتاب اللہ کی تلاوت اور نفس کے تزکیے کے بعد اس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ انبیائے کرام کا حکمت کی تعلیم دینے کا کیا طریقہ تھا؟ اور یہ کہ صحابہ کرام اور اُن کے بعد کے سلفِ صالحین نے حکمت کو اپنا شعار کس طرح بنایا؟ اور اس سے انھیں کیا فوائد حاصل ہوئے؟ ظاہر ہے کہ یہ سوالات بہت تفصیل طلب ہیں. ان کی تشریح کے لیے سیکڑوں صفحات کی ضرورت ہے. مختصر طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایمانی فراست، دانش مندی، ہوش مندی، دور اندیشی، معاملہ فہمی، صحیح تجزیے اور مناسب منصوبہ سازی کی ملی جلی کیفیت کا نام حکمت ہے. یہی وہ صفت ہے جس کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے 23 سال کی مختصر مدت میں انسانی تاریخ کا رخ پھیرا اور اسی صفت کو اپنا کر صحابہ کرام اور اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیات نے تاریخ سازی کا کارنامہ انجام دیا. آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم حکمت کی صفت کو اختیار کریں. ہمارا ہر کام حکمت پر مشتمل ہو اور ہر قدم حکمت کے ساتھ اٹھے. یہ ہماری دینی ضرورت بھی ہے، دنیوی ضرورت بھی ہے اور عظمتِ انسانی کے تحفظ اور بقا کے لیے بھی حکمت کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے ڈاکٹر محمد منظور عالم چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی |