سلسلہ 6
دلپزیر نصیحت - ایک انسانی ضرورت
دنیا میں ہمیشہ سے خیر و شر یا اچھائی اور برائی کے درمیان ٹکراؤ رہا ہے. اس کش مکش میں کبھی شر غالب آتا ہے اور کبھی خیر. خیر کو غالب کرنے کے لیے اسلام نے دعوت کا نظام رکھا ہے. اس نظام کا ایک اہم عنصر نصیحت بھی ہے. یعنی ایسی نصیحت جو انسان کے دل پر اثر انداز ہو اور اسے اپنی غلط سوچ اور کردار و عمل کو تبدیل کرنے پر آمادہ کردے سوال یہ ہے کہ "موعظة حسنة" کسے کہتے ہیں؟ دراصل موعظتِ حسنہ اچھی اور دلپذیر نصیحت کو کہتے ہیں. یعنی ایسی نصیحت جس کو سننے یا پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے. جو بات اسے بتائی جائے، وہ اس کے دل میں اتر جائے. اسے لگے کہ یہ تو بہت منطقی اور دل کو لگتی بات ہے. ایسی بات تو ہم نے کبھی نہیں سنی. یہ سوچ کر وہ شخص دل سے اس بات پر آمادہ ہوجائے کہ اس بات کو اختیار کرلے. البتہ اس دلپذیر بات کو اختیار کرنا یا نہ کرنا انسان کی ذہنی، عائلی اور سماجی صورت حال پر موقوف ہوگا. ضروری نہیں کہ جو بات اچھی لگے اُسے فوراً اختیار بھی کر لیا جائے. اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ذمے داری سونپی بھی نہیں ہے. اچھے انداز میں بات پہنچا کر ہماری ذمے داری ختم ہوجاتی ہے. ماننا نہ ماننا اُس شخص کے اوپر ہے. ہم اس کے ذمے دار نہیں. , موجودہ حالات میں ہمیں موعظتِ حسنہ یا دلپذیر نصیحت کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا. اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیھما السلام) کو خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون جیسے شخص کے پاس بھیجا تو انھیں بھی یہی نصیحت کی کہ اس سے نرم انداز میں بات کرنا. اپنے آپ کو خدا کہنے والے شخص سے نرم بات کرنے کا حکم دے کر ہمارے لیے دعوتی لب و لہجے کا سب سے بنیادی اصول پیش فرما دیا گیا. لہٰذا ہمیں دلپذیر نصیحت کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا. اس کے جدید ترین طریقہ کار کو اختیار کرنا ہوگا. بوسیدہ اور موجودہ دور میں غیر مؤثر طریقوں کو چھوڑ کر نئے انسان کی ذہنیت، سماجی حالت، تہذیبی سیاق اور علمی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے دلپذیر نصیحت کے گوشے ڈھونڈنے ہوں گے. پھر ان گوشوں کے مطابق اس اہم ذمے داری کو ادا کرنا ہوگا. ڈاکٹر محمد منظور عالم چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی |