![]() |
اوقاف: اسلامی تاریخ، ہندوستان میں موجودہ صورتِ حال اور مجوزہ بل
ڈاکٹر منظور عالم
اوقاف اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور بنیادی حصہ رہا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کی معاشی، اقتصادی، اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانا اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں مدد فراہم کرنا ہے۔ وقف کا نظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے جاری ہے، اور اس کے ذریعے بہت سے فلاحی اور ترقیاتی کام سرانجام دیے جاتے رہے ہیں۔ اوقاف مسلمانوں کے لیے ایک اجتماعی اثاثہ ہے جو مختلف قوموں اور معاشروں میں ان کی سماجی اور تعلیمی ترقی میں معاون رہا ہے۔ اسلامی تاریخ میں وقف کا تصور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جاری ہے۔ حضرت عمرؓ کا وقف عمر ایک مشہور مثال ہے، جس کے ذریعے خیبر کی زمین کو اللہ کی راہ میں وقف کیا گیا تھا تاکہ اس سے حاصل ہونے والے منافع کو فلاحی کاموں میں استعمال کیا جا سکے۔ خلافت راشدہ سے لے کر بعد کے اسلامی ادوار تک، وقف کی جائدادیں تعلیمی اداروں، مساجد، یتیم خانوں اور ہسپتالوں کے قیام کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ہندوستان میں اوقاف کا نظام مغل دور سے چلتا آ رہا ہے، اور یہاں مسلمانوں کی اوقاف کی بہت زیادہ جائیداد موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ریلوے کے بعد ہندوستان میں سب سے زیادہ جائیداد وقف کی ہے، جو مسلمانوں کی اپنی ملکیت ہے اور حکومت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہونا چاہیے۔ وقف کی جائیدادیں مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں، جو تعلیمی ادارے، مساجد، ہسپتال اور دیگر فلاحی ادارے چلانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں وقف جائدادوں کے بہتر استعمال کے لیے ہر دور میں حکومت نے کچھ اصول اور قوانین بنائے ہیں تاکہ ان املاک کا منظم اور مؤثر استعمال ہو سکے۔ میری کوششوں کے نتیجے میں 2013 میں جب محترم کے رحمان خان صاحب اقلیتی امور کے وزیر تھے کچھ اہم ترمیمات منظور کی گئی۔ اس ترمیم کا مقصد وقف بورڈز کے نظام کو بہتر بنانا تھا تاکہ وقف جائدادوں کا صحیح استعمال ہو سکے اور ان سے حاصل شدہ وسائل کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مؤثر طریقے سے بروئے کار لایا جا سکے۔ 2013 کی اس ترمیم کے بعد وقف بورڈز کی کارکردگی میں بہتری آئی، اور وقف جائدادوں کے نظم و نسق میں شفافیت اور احتساب کا نظام متعارف ہوا۔ اس ترمیم کے ذریعے وقف جائدادوں کو غیر قانونی قبضوں سے بچانے، ان کے تحفظ، اور عوامی فلاحی مقاصد کے لیے ان کا مؤثر استعمال ممکن ہوا۔ تاہم، حالیہ دنوں میں بی جے پی حکومت جو وقف جائدادوں کے حوالے سے نیا قانون لے کر آئی ہے، اس پر شدید تحفظات ہیں۔ یہ مجوزہ بل اوقاف کی اصل منشاء کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے مفادات کے برعکس ہے۔ اس قانون میں ایسی بہت سی خامیاں موجود ہیں جو وقف جائدادوں کے صحیح استعمال میں رکاوٹ بن سکتی ہیں اور ان جائدادوں کو غیر فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا خطرہ پیدا کرتی ہیں۔ اس بل میں ایسی دفعات شامل کی گئی ہیں جو وقف جائدادوں کو سرکاری قبضے میں لینے یا ان کا کنٹرول حکومت کے حوالے کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ مسلمانوں کی جائداد ہے، اور اس کا حق صرف مسلمانوں کو ہی ہونا چاہیے کہ وہ اسے اپنی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ حکومت کا اس میں مداخلت کرنا نہ صرف غیر آئینی ہے
بلکہ وقف کی اسلامی منشاء کے بھی خلاف ہے۔ مجوزہ قانون میں کئی ایسی خامیاں موجود ہیں جو وقف کے نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں: 1. سرکاری مداخلت: وقف جائدادوں کے انتظام و انصرام میں حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت وقف کی خود مختاری کو ختم کر سکتی ہے۔ 2. قبضے کا خطرہ: اس بل کے ذریعے حکومت کو وقف جائدادوں پر قبضے کا قانونی اختیار مل رہا ہے، جو مسلمانوں کی اس جائداد کو غیر فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ 3. وقف بورڈز کی آزادی ختم: مجوزہ قانون وقف بورڈز کی خود مختاری اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے، جس سے ان کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ 4. مسلمانوں کی بے چینی: یہ بل مسلمانوں میں بے چینی اور تشویش پیدا کر رہا ہے کہ کہیں ان کی قیمتی جائدادیں غیر قانونی طور پر حکومت کے قبضے میں نہ چلی جائیں۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس مجوزہ بل کو مسلمانوں کے مفادات اور وقف کی اصل منشاء کے مطابق دوبارہ دیکھا جائے۔ وقف جائدادیں مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کا ایک اہم ذریعہ ہیں، اور ان کا تحفظ یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بل میں موجود خامیوں کو دور کرے اور مسلمانوں کے ساتھ مشاورت کر کے وقف کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ مسلمانوں کو بھی اپنی جائدادوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور ان کے بہتر استعمال کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ وقف جائدادیں فلاح و بہبود کے حقیقی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکیں۔ آل انڈیا ملی کونسل اس حوالے سے سرگرم ہے اور ملک بھرمیں بیداری مہم چلائی جارہی ہے۔ ملی کونسل کے وفد نے جے پی سی کے چیرمین سے ملاقات کرکے انھیں ایک میمورنڈم نے بھی سونپا تھا اور انہیں تفصیل کے آگاہ کیا کہ یہ بل خامیوں سے بھرا ہوا ہے وقف کے منشا کے برعکس ہے اس لئے اس کو رد کیا جانا چاہیے۔ انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کی جانب سے بھی کمیٹی کو مشورے بھیجے گئے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر تنظیموں کی اپیل پر پانچ کروڑ ایمیل بھی مسلمانوں نے بھیج کر زندہ دلی اور ملی بیداری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی ترجمانی کرتے ہیں کہ مسلمان مکمل طور پر اس بل کے خلاف ہیں۔۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سیکرٹری ہیں) |