بابری مسجد کی جگہ پر بت پرستی : اے رب ہم شرمندہ ہیں!

ڈاکٹر منظور عالم

بابری مسجد کی تعمیر 1528میں بابر کے ایک سپہ سالا ر میر باقی نے اجودھیا کی سرزمین پر کی تھی ، جب بابری مسجد کی تعمیر ہوئی تو اس جگہ اور پورے ملک میں کہیں بھی رام مندر اور رام چندر کے بھگوان ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں تھا ، اکبر کے عہد میں رام پرکئی ساری کتابیں لکھی گئی جس میں کہیں بھی رام مندر ، رام کی جائے پیدائش اور رام چندر کا کوئی ذکر نہیں کیاگیا ہے ۔انیسویں صدی تک کسی نے کبھی کوئی تذکرہ نہیں کیا کہ اجودھیا میں رام کا جنم ہواتھا ،یہاں کبھی رام کا مندر تھا یا پھر مندر توڑ کر اسی جگہ پر بابری مسجد کی تعمیر کی گئی۔ پندرہویں صدی میں مسجد کی تعمیر کے بعد لگاتار مسجد کے میناروں سے اذان کی صدائیں گونجتی رہی ، نمازیں وہاں ہوتی رہی ، وہ زمین بندگان خدان کے سجد وں سے معمور ہوتی رہی ۔ چار سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد 1860 کی دہائی میں اچانک دعوی کیاگیا کہ بابری مسجد کے احاطہ میں ایک جگہ ” رام جنم بھومی “ ہے ، یہاں ہندﺅوں کو بھی پوجا کا حق ملنا چاہیے ، 1885 میں یہ معاملہ پہلی مرتبہ مقامی عدالت میں پہونچا لیکن مسترد کردیاگیا ،65 سالوں بعد 1949 میں مسجد میں زبردستی مورتی رکھ دی گئی ، 37 سالوں بعد 1986 میں ضلع جج نے مسجد کے احاطہ میں ہندﺅوں کو پوجا کی اجازت دے دی ، اگلے سالوں میں شدت پسند عناصر اور بی جے پی کے رہنماﺅں نے بابری مسجد کو شہید کرنے کیلئے ملک گیر مہم چلائی ، 6 دسمبر 1992 کو یہ تاریخی مسجد حکومت ، انتظامیہ ، عدلیہ اور پولس کی نگاہوں کے سامنے زمین دوز کردی گئی ، سال 2010 میں الہ آباد ہائی کور ٹ نے بابری مسجد کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ،اس کے بعد 9 نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز کی بینچ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسلمانوں کے تمام دعوی اور دلیلوں کو تسلیم کیا ، ہندو فریق کے سبھی دعوں کو خارج کردیا اس کے باوجود مسجد کی زمین مندر کی تعمیر کیلئے دینے کا فیصلہ سنادیا اور کہاگیا کہ بابری مسجد کی تعمیر دوسری جگہ پر ہوگی ۔

ہندوفریق کا دعوی تھا کہ بابرنے رام مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کی تھی جس کو خارج کردیاگیا اور سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ خالی جگہ پر مسجد کی تعمیر ہوئی تھی ، ہندو فریق کا دعوی تھا کہ 1949 میں رام یہاں پر کٹ ہوئے تھا سپریم کورٹ نے اسے خارج کرتے ہوئے کہاکہ مورتی باہر سے لاکر رکھی گئی تھی ، ہندوفرق کا دعوی تھاکہ بابری مسجد کو توڑنا کوئی غیر قانونی اور جرم نہیں تھا لیکن سپریم کورٹ نے واضح لفظوں میں کہاکہ 6 دسمبر کا واقعہ جرائم کا ارتکا ب تھا اور اس میں ملوث سبھی افراد کے خلاف مقدمہ کی سنوائی ہونی چاہیے ، ہندو فریق بابری مسجد کے احاطہ میں رام جنم بھومی ہونے کے عقیدہ کی بھی کوئی دلیل نہیں پیش کرسکا ۔ ان سب کے باوجود مسجدکی جگہ پر رام مندر بنانے کا فیصلہ سنایاگیا ۔

یہ فیصلہ ملت اسلامیہ ہند یہ کی تاریخ کا سب سے شرمناک با ب تھا ، مسلمانوں کے پاس کوئی آپش نہیں بچا تھا ،عدالت عظمی آخری امید تھی لیکن یہاں انصاف دینے کی جگہ پنچایتی راج کی طرح فیصلہ کیاگیا ۔ ایک طبقہ نے جشن منایا ، خوشیوں کا اظہار کیا اور فورا مندر کی تعمیر کا سلسلہ شروع کردیاگیا اور اب یہ تعمیر مکمل ہونے والی ہے ، مندر کا افتتاح کردیاگیا ہے ۔ پانچ سو سالوں تک زمین کے جس ٹکرے پر سجد ے ہوتے رہے ، جہاں اللہ اکبر کی صدائیں گونجتی رہی وہاں اب شرک وکفر کا نظام رائج ہوگیا ہے ، مورتی پوجا کی شروعات ہوگئی ہے ۔ یہ ایک مومن کیلئے ناقابل برداشت ہے ، وقت کے ان لمحوں کو دیکھنا مشکل ہوگیا ہے ، دل چھلنی چھلنی ہے، صبر کا پیمانہ چھلکنے لگا ہے لیکن ہمارے پاس صبر کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچاہے اور اللہ تعالی کی ذات سے پوری امید وابستہ ہے کہ وہ اپنے گھر کی حفاظت کرے گا ، برسوں تک اللہ اکبر کی صداﺅں سے گونجنی والی سرزمین کفر کا مرکز نہیں بن پائے گی۔ہم سب نے مسجد کو بچانے اور شرک کا اڈہ بننے سے روکنے کی پوری کوشش کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی لیکن اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے کہ واپنے گھر کو، زمین کے اس حصہ کی حفاظت خود فرمائے گا ، شرک وکفر کا غلبہ وہاں نہیں ہونے دے گا ۔تاریخ کا واقعہ ہمارے لئے مشعل راہ اور مشکل کی اس گھڑی میں امید کی کرن بھی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے چند سال قبل یمن کے گورنر ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا اور کعبہ کو تباہ کرنے کا عزم ظاہر کیا اس وقت قریش کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے قریش کو پہاڑوں پر پناہ لینے کو کہا اور خود اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ شہر میں رہے۔ ابرہہ نے پیغام بھیجا کہ وہ صرف کعبہ کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو حضرت عبد المطلب نے کہا کہ اس گھر کا مالک خود اس کا محافظ ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ اسے حملہ آوروں سے بچائے گا اور اس گھر کے خدام کو بے عزت نہیں کرے گا۔ ابرہہ نے جب حملہ کیا تو اللہ نے ابابیلوں کا جھرمٹ بھیجا جس نے ابرہہ کے تمام لشکر پر کنکریاں برسایا۔ ان کنکریوں نے ابرہہ کے لشکر کو تباہ کر دیا۔ابرہہ زخمی حالت میں یمن کی طرف فرار ہوا مگر راستے میں مرگیا۔ یہ واقعہ 570 میں پیش آیا اور اسی سال حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔

بابری مسجد کسی مسلمان کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالی کا گھر تھا ، پانچ سو سالوں تک وہاں لگاتار اذانیں اور نمازیں ہوئی ہیں ، مسجد کی تعمیر کسی مندر یا دوسرے کی عبادت گاہ کو منہدم کرکے نہیں کی گئی تھی ، بابری مسجد کو بچانے کی لڑائی آئین کی پاسداری ، قانون کی حکمرانی اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ دینے کی جہدوجہد تھی ۔ ملت اسلامیہ کے رسوخ اور مساجد کے بقاءکی تحریک تھی ۔ آج جو کچھ وہاں پر ہورہاہے اسے دیکھ کر دل بے چین ہے ، آنکھوں سے آنسو رواہے ، یہ لمحات ناقابل برداشت ہیں ۔

پرور دگار عالم کی بارگاہ میں ہم اپنی بے بسی ، بے چینی اور شرمندگی کا اظہار کررہے ہیں ۔ اے اللہ تو قادر مطلق ہے ، ہر چیز پر قادر ہے ۔ ہم بیحد شرمند ہ ہیں کہ اس جگہ کو شرک کا اڈہ بننے سے نہیں روک سکے ، تمام تر کوششوں کے باوجود آج یہاں پر مورتی کی پوجاکی جارہی ہے ، اللہ اکبر کے صداﺅں سے معمور یہ زمین آج شرک کی آماجگاہ بن گئی ہے ۔ نماز اور سجد ہ کی جگہ شرکیہ عمل کیا جارہاہے ۔ اے اللہ تو اس جگہ کو کفراور شرک کا اڈہ ہونے سے بچالے ، تاریخ شاہد ہے ،آپ نے ابابیلوں کا لشکر بھیج کر خانہ کعبہ کی حفاظت کی ہے ، ابرہہ کے لشکر کو تباہ وبرباد کیا ہے ۔ اے اللہ آج ہم بھی یہاں بے بس ہیں ، ہم نے قانونی طور پر کوشش کی ، تمام راستہ اختیار کیا اس کے باوجود مسجد ہم نہیں بچاسکے ہیں۔

یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے، جو ر ±وح کو تڑپا دے
پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)