بنگال اسمبلی انتخابات 2024 کیلئے پیش خیمہ
ڈاکٹر محمد منظور عالم
انتخابات اور الیکشن کی قدروقیمت ان ممالک کے شہریوںسے پوچھیے جہاں انتخابات کی روایت نہیں ہے ۔ جہاں جمہوریت کے بجائے آمریت ہے لیکن ہندوستان میں بھی جمہوریت کی جگہ آمریت لانے کی کوشش ہورہی ہے اور اسی لئے یہاں انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ رائے دہندگان کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر ووٹ کریں ۔ عوام ، ملک ،آئین ، دستور ،اقلیتوں اور تمام طبقات کے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں کیوں کہ کچھ لوگ انتخابات میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے آتے ہیں وہیں کچھ لوگ انتخابات کا سہارا جمہوریت کو ختم کرکے آمریت نافذ کرنے کیلئے لے رہے ہیں ۔ اپنے خطرناک مقاصد اور ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے وہ انتخاب کا سہارا لے رہے ہیں لیکن اصل مقصد آئین کا خاتمہ ، جمہوریت کی بیخ کنی اور منواسمرتی کا نظام نافذ کرنا ہے ۔
بنگال اسمبلی انتخابات اور دیگر چناﺅ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرروت ہے کہ یہ دستور ہند کے تحفظ اور دستور ہند کو ختم کرنے کے درمیان ہے ۔ دستور ہند میں جس بات پر زور ڈالا گیاہے وہ انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ ہے ۔ ہندوستان میں بسنے والے سبھی شہریوں کو یکساں حقوق کا حقدار ٹھہرایاگیاہے ۔ کسی کو کسی پر بھی کوئی فوقیت نہیں دی گئی ہے ۔ سبھی کی خوشحالی ، ہمہ جہت ترقی اور کامیابی کی بات کی گئی ہے ۔ تعلیم ، تربیت اور روزگار دینے کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور ارباب اقتدار کی یہ بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ لیکن منصوبہ اور مقصد اس کے برعکس ہے ۔ انتخابات کے ذریعہ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد عوام کو خوشخالی ، ملک وریاست کی ترقی ، آئین کی حفاظت کے بجائے اصل منصوبہ منواسمرتی کے نفاذ ا ور آئین کے خاتمہ کاہے ۔ بنیادی عزائم میں برہمنواد کا نظام رائج کرنا اور ایک مرتبہ پھر دلتوں اور آدی واسیو ں کو غلام بنانا شامل ہے ۔ مہاتماگاندھی اور امبیڈکر کے خیالات کی روشنی میں جو آئین ترتیب دیاگیاتھا اس کو ختم کرنا ،اس کی جگہ منو اسمرتی کو لانا اور ہندتوا کو تھوپنا بنیادی منصوبہ ہے اور اسی کی تیاری زور شور کے ساتھ جاری ہے اس لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بنگال اسمبلی چناﺅ اور دیگر ریاستوں میں ہونے والے الیکشن عام انتخابات 2024 کا پیش خیمہ ہیں ۔ 2024 میں بی جے پی اپنے اس منصوبہ کو نافذ کرنا چاہتی ہے جس کیلئے آر ایس ایس کی گذشتہ سو سالوں سے محنت اور جدوجہد جاری ہے ۔اس کے نزدیک انسانوں میں درجہ بندی اور تفریق ہے ۔ سبھی انسان آزادی ،انصاف اور مساوات کے حقدار نہیں ہیں۔ ان کا مانناہے کہ حکومت ، عبادت اور قیادت صرف اپرکاسٹ اور بڑی ذاتی کے لوگوں کا حق ہے ۔ بقیہ دوسرے ان کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں ۔ ان کی نظر میں وہ آئین غیر معتبر اور قابل مسترد ہے جس میں سبھی کی برابری اور آزادی کی بات کی گئی ہے ۔ ایسے آئین کو وہ تسلیم نہیں کرسکتے ہیں اور وہ اسے بدل کرمنو اسمرتی کا نظام لانا چاہتے ہیں ۔ اسی مشن کو عملی جامہ پہنا نے کیلئے شمالی ہندوستان کی متعدد ریاستوں کے بعد بی جے پی نے بنگال پر پوری توجہ دے رکھی ہے تاکہ اب یہ ریاست بھی بی جے پی کے زیر اقتدار آجائے اور 2024 کیلئے راستہ صاف ہوجائے ۔ انسانوں کو غلام بنانے کی اس کوشش کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی سے اس کی کوشش کرنی ہوگی ۔ یہ بات واضح رہنی چاہیئے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتاہے ۔ بی جی تلک نے بھی کہاتھا کہ ہر بچہ آزاد پیدا ہوتاہے پھر کیوں کوئی اسے غلام بناسکتاہے اور ایسے کوشش کرنے والے انسانیت کے اولین دشمن ہیں جن کے عزائم کو ناکام بنانا پوری انسانیت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ بنگال اور دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکاہے۔ بی جے پی کی بنگال میں حکومت کبھی نہیں رہی لیکن یہ بات سچ ہے کہ بی جے پی اب وہاں مضبوط ہورہی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی بنگال میں حیرت انگیز تھی ۔ بنگال میں لیفٹ کی طویل عرصہ تک حکومت رہی اور اب گذشتہ دس سالوں سے ممتا بنرجی کی قیادت میں ٹی ایم سی کی حکومت ہے ۔ لیفٹ اور ٹی ایم سی نے اقتدارپر توجہ مرکوز کی ۔ سبھی ذات ، طبقہ ، کمیونٹی اور قوم کی حفاظت کویقینی بنایا ۔ کسی کے ساتھ بھید بھاﺅ نہیں ہونے دیا ۔ یہ کوشش رہی ہے کہ تمام مذہب ، ذات ، طبقہ کے شہریوں کو یکساں حقوق ملے ۔ سبھی کے ساتھ عملی طور پر انصاف ، مساوات اور بھائی چارہ کا رویہ اپنا یا جائے ۔ کسی کے ساتھ امتیازی معاملہ کبھی نہ ہو ۔ ٹی ایم سی نے خاص طور پر ایک اور کام یہ کیا کہ اس نے پاروٹ شفٹ نہیں کیا ۔ ایسا انتظام نہیں کیاکہ اقتدار ہمیشہ کیلئے اس کے پاس ہی رہ جائے ۔ اس کے علاوہ اس نے صوبہ کی تعمیر وترقی پر خصوصی توجہ دی ۔ علاقے اور ریاست سے غربت کا خاتمہ کیا ۔ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں پر دھیان دیا ۔ تعلیم وتربیت پر ریاست نے کام کیا ۔ بھید بھاﺅ کا خاتمہ کیا ۔ سبھی سماج اور طبقات کے درمیان اتحاد واتفاق اور سماجی ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش کی ۔ سماج کو ابھرنے اور ابھارنے کا موقع فراہم کیا ۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا ایجنڈا نافذ کیا ۔ سبھی کے جان ومال کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا ۔ دوسری طرف بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کی مثال ہمارے سامنے ہیں جہاں دلتوں پر لگاتا رظلم ہورہاہے ۔ خواتین کی عزت وعصمت محفوظ نہیں ہے ۔ چھوٹی ذات کے لوگوں کو عزت وانصاف کا حقدار نہیں سمجھا جارہاہے ۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہیںہیں ۔ یہ چیزیں آنکھیں کھولنے ، صحیح فیصلہ کرنے اور اقتدار کو صحیح ہاتھوں تک پہونچانے کیلئے کافی ہیں ۔ اگر ایسی واضح مثالوں کے باوجود کسی کے ذہن میں کوئی شک ہے ۔ کسی کے ذہن ودماغ میں کوئی خواب ہے ۔ سب کچھ تباہ ہوجانے کے باوجود بھی کسی کو کوئی امید باقی ہے تو پھر اس پر افسوس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کیا جاسکتاہے ۔ دستور ہند اور اس کا تحفظ اہم ہے ۔ ہندوستان میں سیکولر پارٹیوں کی طویل فہرست ہے لیکن ایک دو کے علاوہ سبھی کے مقاصد میں ائین ہند کا تحفظ بنیادی ایجنڈا کے طور پر شامل ہے ۔ لہذا ان پارٹیوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مشکل حالات میں اتحاد کا مظاہرہ کریں ۔ آئین کے خلاف کوششیں کرنے والوں کے خلاف ٹال مٹال کرنے کے بجائے متحد ہوکر مقابلہ کریں اور کوئی مستقل لائحہ عمل طے کریں کہ کیوں کہ کسی بھی پارٹی کا وجود ،اس کی جمہوریت اور ڈیموکریسی اسی وقت تک معتبر ہوگی جب ملک میں جمہوریت باقی رہے گی ۔ سیکولرزم اور ڈیموکریسی کا وجود برقرار رہے گا اس لئے سبھی کو متحد ہونے اور آئین ہند کی حفاظت کیلئے ایک ہونے کی اشدضرور ت ہے ۔ بنگال اسمبلی انتخابات میں جو پارٹیاں سرگرم ہیں انہیں اس بارے میں غو رکرنے کی اشدضرورت ہے ۔ لیفٹ اور کانگریس کے درمیان سمجھوتہ ہوا ہے لیکن ٹی ایم سی اور کانگریس کے درمیان سمجھوتہ نہیں ہوا ہے جو خوش آئند نہیں ہے ۔جمہوریت کے تحفظ کیلئے قربانی دینا ضروری ہے ۔ جب تک یہ مزاج پیدا نہیں ہوگا جمہوریت میں ترقی اور مضبوط حکومت کا قیام ناممکن ہے ۔ ( مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں ) |