دلت مسلم اتحاد
کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
جب کبھی ملک میں انتخابی موسم آتا ہے تو دلت مسلم اتحاد کے چرچے ہونے لگتے ہیں۔ یہ دلت مسلم اتحاد کیا ہے اور کیا واقعی ممکن ہے یا محض وقت گزاری کا ایک مشغلہ ہے جس کے ذریعہ الیکشن تک اس پر گفتگو کی جاتی ہے اور پھر اس موضوع کو اگلے الیکشن تک کے لیے لپیٹ کر رکھ دیاجاتا ہے۔ لیکن اس بار ماحول اس لیے قدرے مختلف ہے کہ برہمن وادی عناصر کے ذریعہ جس طرح انھیں زدو وکوب کیا جارہا ہے اس نے دلتوں کو اندر سے ہلادیا ہے حتی کہ سیاسی پارٹیاں جو دلت ووٹوں کی دعویدار ہیں وہ بھی ان کی داد رسی کے لیے آگے نہیں آرہی ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ کہہ کر اپنی بے بسی کا اظہار کردیا کہ ’’اگر مارنا ہے تو مجھے ماریں لیکن میرے دلت بھائیوں کو نہ ماریں‘‘۔ سوال مارنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ جن عناصر نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر یہ حرکت کی وزیر اعظم نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی بات کیوں نہیں کی اس کی وجہ سے ان عناصر نے یہ اخذ کیا کہ انھیں اپنا کام کرنے کی چھوٹ ہے اور دلتوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ حکومت ان کے تحفظ میں ناکام ہے۔ یہ سوچ صرف دلتوں میں ہی نہیں بلکہ سماج کے دیگر کمزور طبقات، اقلیتوں بشمول مسلمانوں میں پروان چڑھ گئی کیونکہ دو سال سے زائد کی حکمرانی میں ان طبقات کے ساتھ جو ظلم وزیادتی کی گئی وہ کوئی ا فسانوی باتیں نہیں ہیں بلکہ اعداد وشمار پر مبنی وہ حقائق ہیں جنھیں خود حکومت کے مختلف اداروں نے اپنی رپورٹ میں پیش کیا ہے۔
یکساں حالات سے دوچار ملک کے کمزوروں، دلتوں، اقلیتوں اور بشمول مسلمانوں کو باہم متحد ہوکر ظلم کے خلاف جدو جہد کرنے کی سوچ نے پروان چڑھایا جس کا نتیجہ یہ دیکھنے کو ملا کہ جب گجرات میں اونا ودیگر جگہوں پر ہورہے تشدد کے خلاف مہم چلائی گئی تو اس میں مسلمان بھی بڑھ چڑھ کر ان کے ساتھ شریک ہوئے۔ یہ وہی گجرات ہے جب 2002میں بھیانک فسادات ہوئے تھے تو کہا جاتا ہے کہ بی جے پی نے ان دلتوں کو ہی مسلمانوں کے خلاف آگے بڑھایا تھا اور مسلمانوں کے خلاف قتل وغارت انہی دلتوں نے انجام دی تھی۔ لیکن بدلے حالات نے پورے منظرنامہ کو بدل دیا ہے جس کی وجہ سے مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کافی بے چین ہے اور وزیر اعظم کا مذکورہ بیان بھی در اصل اسی بے چینی کا غماز ہے۔ حالانکہ ابھی دلت مسلم اتحاد کی بیل مونڈھے نہیں چڑھی ہے لیکن تجربہ کار نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ آج جو بیج پڑا ہے وہ آگے چل کر ایک تناور درخت بن سکتا ہے۔ اگر اس کی آبیاری صحیح ڈھنگ سے کی گئی تو ایک نئی سیاسی صف بندی کو وجود میں لانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ صورت حال یہ ہے کہ گجرات میں دلت 22فیصد اور مسلمان 9فیصد ہیں۔ یہ دونوں مل کر 31فیصد ہوئے اور مرکز کی بی جے پی حکومت بھی کل 31فیصد ووٹوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ دلت۔مسلم اتحاد کی اس پیش رفت کو ’دم‘ کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔
جس طرح سے دلت۔مسلم اتحاد کی کوششوں کے حوالے سے گجرات سے خبریں آرہی ہیں اسی کا ثر ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کا تجربہ کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔ لیکن کیایہ اتنا آسان ہے کہ کہا اور ہوگیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کے پیچھے کافی پیچیدگیاں ہیں اور اس میں کسی حد تک رکاوٹ خود مسلم ذہن بھی ہے۔ مسلمانوں میں اس کی تشہیر تو خوب کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر جو مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ بھی دلتوں کے حوالے سے مسلمانوں میں کسی برہمن سوچ سے کم نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ دونوں طبقات سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ اور ستائے ہوئے ہیں اکٹھا نہیں ہوپاتے اور اکٹھا ہونے کی بات تو دور، دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء دکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیاماضی کے تجربات کو زیر بحث نہ لایا جائے، یقیناًلایا جائے اور اس سے رہنمائی لی جائے لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ جن ایشوز کی بنیاد پر دلت۔ مسلم اتحاد ماضی میں ناکام ہوا تھا اس کو دہرایا جائے بلکہ اس میں جو مثبت پہلو ہو اس کو اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ اگر ہم صرف ماضی کی ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کو ہی موضوع گفتگو بناتے رہیں گے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بنیادی طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے عملی شکل اختیار کرنے میں کیا کیا چیزیں مانع ہیں اور انھیں کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی طبقہ اگر وہ سماج کے نچلے پائیدان پر ہے تو اس سے اس بات کی توقع کرنا کہ وہ ہر مرحلے پر کھرا اترے گا، کسی خام خیالی سے کم نہیں ہے کیونکہ جو طبقہ زیر اثر اور محکوم ہوتا ہے وہ کب متاثر ہوکر اپنی راہ الگ کرلے کہنا مشکل ہے اس لیے یہ کام کافی صبر آزما ہے اور طویل ہے، اور نہایت ہی حکمت عملی سے انجام تک پہنچانے کامتقاضی ہے۔
مسلمان ایک داعی امت ہیں اس لحاظ سے ان پر یہ دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں خواہ یہ ظلم کرنے والے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ اس ذمہ داری کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماج کے پسماندہ، کمزوروں، دلتوں، آدی واسیوں اور اقلیتوں کے خلاف ہورہے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تاکہ ان طبقات کو ظلم وستم سے بچانے میں اپنا فرض منصبی ادا کرسکیں۔ چونکہ مسلمان بھی دلتوں کی طرح ستائے ہوئے ہیں ایسی صورت میں اگر دونوں کے درمیان کوئی تال میل ہوجاتا ہے تو ایک نئی عبارت ضرور لکھی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے بہت خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فرقہ پرست طاقتوں کی کوششوں کا محور یہ ہے کہ جس طرح 2014کے لوک سبھا الیکشن میں مسلم ووٹوں کو اترپردیش کی سطح پر بے اثر کردیا تھا ٹھیک اسی طرز پر دلت ووٹوں کو بھی بے اثر کردیا جائے تاکہ دونوں باوجود اپنی تعداد کے کوئی موثر رول ادا کرنے سے محروم رہیں۔
داعی امت ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں پر جہاں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ذمہ داری ہے وہاں ان کا دینی فریفہ ہے کہ انھیں دعوت دین سے روشناش کرائیں۔ مسلمانوں میں یہ چلن بڑھتا جارہا ہے کہ بعض حضرات خط لکھ کر انھیں قبول اسلام کا مشورہ دیتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ طریقہ یہاں مناسب نہیں ہے کیونکہ اسلام کی شناخت اس کے ماننے والوں کے اخلاق وکردار سے ہوتی ہے جس سے متاثر ہوکر لوگوں نے جوق درجوق اسلام قبول کیا ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو مقصد کے لحاظ سے انسانوں کی عظمت، ترقی اور انسانیت کو پروان چڑھانے پر یقین رکھتا ہے۔ اچھے اخلاق اور اقدار کے نمونے پیش کرنے پر زور دیتا ہے۔ اچھے مقصد کے لیے اچھے ذرائع کا استعمال کرنے پر ابھارتا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کا عملی مظاہرہ اپنے اخلاق وکردار سے پیش کریں۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے اس پر کافی زور دیا ہے ۔ اس کا تقاضہ ہے کہ مسلمان دلت بھائیوں کے ساتھ دوستانہ مراسم پیدا کریں اور ان سے بھائی چارگی کے رشتہ کو استوار کریں۔ ماضی میں ہمارے بعض بزرگوں نے اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا تھا کہ وہ ان کی بستیوں میں جاتے اور ان کے گھر پانی پیتے اور ان سے روابط استوار کرتے لیکن عصر حاضر میں یہ مہم تقریباً ناپید ہوگئی ہے اور خود مسلمانوں نے بھی انھیں اچھوت سمجھ کر ان سے وہی سلوک روا رکھا ہے جس طرح کا سلوک اکثریتی سماج کے اقتدار ی طبقہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ ان حالات میں انھیں وفا کا پیکر سمجھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوگا بلکہ ہمیں اپنے عمل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی اور جب بات دعوت دین کی ہوتی تو پھر ان کا سلوک اور رویہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اگر یہ عمل مستقل جاری رہتا ہے تو پھر ایک نئی صف بندی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ یہ سوال ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہوگا اور اس کے جواب پر ہی دلت۔مسلم اتحاد کے مستقبل کا انحصارہوگا۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home