دیش بچانے کیلئے ایک بار پھر قربانی دینے کی ضرورت
ڈاکٹر محمد منظور عالم
جمہوریت ، سیکولرزم، مشترکہ تہذیب ہندوستان کی خصوصی شناخت مانی جاتی ہے ، صدیوں سے یہاں مختلف مذاہب کے پیروکار، مختلف تہذیبوں کے ماننے والے ، مختلف زبانوں کے جاننے والے ، مختلف ادیان کے ماننے والے اور مختلف نسل ، ذات اور خطہ سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھ رہتے ہوئے آئے ہیں۔ انہیں چیزوں نے ہندوستان کو دنیا بھر میں خصوصیت اور اہمیت عطا کی ہے لیکن حالیہ دنوں میں ہندوستان کی اسی مشترکہ تہذیب کو پامال کرنے کی سازش رچی جار ہی ہے ۔ مذہبی شدت پسندی کی آڑ میں ملک کو برباد کیا جارہاہے ، شدت پسندمذہبی لیڈروں کو آگے بڑھا کر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں لڑانے کی سازش رچی جارہی ہے ۔حالیہ برسوں میں لگاتار ایسے واقعات پیش آرہے ہیں ۔مسلمانوںکی ماب لنچنگ کی جاتی ہے ، زبردستی اسلامی عقائد کے خلاف جملے بولنے پر مجبور کیا جاتاہے ، نہیں بولنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے ، کہیں بھی شرپسند عناصر مسلمانوں کو گھیرکر مارنے کی دھمکی دیتے ہیں ، مسجدوں ، مدرسوں، خانقاہوں ، چرچوں، عیسائی مشنریز کے اسکولوں پر حملہ کرتے ہیں،ان سارے واقعات کی وہ ویڈیوز بناتے ہیں، اسے سوشل میڈیا پروائرل کرتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود پولس کوئی کاروائی نہیں کرتی ہے ، ایسے لوگوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی ہے بلکہ ان کے حوصلے مزید بلند ہوجاتے ہیں اور آئندہ دنوں میں وہ مزید مسلمانوں پر حملے شروع کردیتے ہیں ۔شرپسندوں کو چھوٹ دینے ، ان کے خلاف کارائی نہ کرنے بلکہ پس پردہ ایسے عناصر کی حمایت کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ اترا کھنڈ کے ہریدوار میں دھرم سنسد منعقد کرکے مسلمانوں کے قتل عام کی تجویز پاس کی جاتی ہے ۔17 دسمبر سے 19 دسمبر 2021 کے درمیان اترا کھنڈ میں دھرم سنسد منعقد کی گئی ، اس میں شدت پسند سادھوﺅں نے مسلمانوں کے قتل کرنے کی تجویز پاس کی ، بھارت کو روہنگیا بنانے کی بات کی ، ایک سادھونے ملک کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سینے میں چھ گولیاںداغنے کی خواہش ظاہر کی ، آزاد ہندوستان کے پہلے دہشت گرد ناتھورام گوڈ سے زندہ باد کے نعرے لگائے گئے ، اس کو ملک کا محسن بتایاگیا ، اسی طرح کی ایک دھرم سنسد چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور میں ہوئی جہاں مہاتما گاندھی کی شان میں گستاخی کی گئی ، ان کیلئے انتہائی نازیبا کلمات کا استعمال کیاگیا جس کیلئے پور ے ملک نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ہورہی ہے جس میں ایک شدت پسند صحافی ایک تقریب کے دوران لوگوں کو ہندوراشٹر بنانے کیلئے حلف دلوارہاہے ، تلوار اٹھانے ، حملہ کرنے اور شہریوں کو خون بہانے کیلئے اکسارہاہے ، اسی طرح کی بات ایک اسکول ٹیچر بھی بچوں کے ساتھ کرتاہے ، یعنی بچوں کو بھی دیش کو ہندو راشٹر بنانے کے نام پر دہشت گرد ی کرنے اور ہتھیار استعمال کرنے کا حلف دلوایا جارہاہے ۔مسلمانوں کے خلاف لگاتار نفرت پھیلائی جارہی ہے ۔ دشمنی ، تعصب اور عدوات کی انتہاءیہ ہوگئی ہے کہ میڈیا اور سوشل سائٹ پر فعال مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی شروع کردی گئی ہے ، پہلے سلی ڈی اور اب بلی ڈیل جیسے ایپ بناکر مسلم خواتین کی تصویر اپلوڈ کی جارہی ہے اور سرعام ان کی عزت وعصمت کا تماشابنایاجارہاہے ، یہ حرکت سب سے شرمناک ، گھٹیااور بیہود ہ ہے ۔ایسی حرکتیں کرنے والے عناصر سماج کے بدترین دشمن اور بدخواہ ہیں لیکن ایسے عناصر کے خلاف بھی عموما کاروائی نہیں ہوتی ہے ، ان کے خلاف ایکشن نہیں لیاجاتاہے او راسی کا نتیجہ ہے کہ پہلے سلی ڈیل ایپ بناکر مسلم خواتین کی سرعام نیلامی کی گئی اور اب بلی ڈیل جیسا ایپ بناکر وہی کام کیاجارہاہے ۔اگر پہلی مرتبہ کاروائی کی جاتی ، شرپسندوں کے خلاف ایکشن لے لیاگیا ہوتا تو پھر دوبارہ سماج کو بدنام کرنے والے ایسے عناصر یہ ہمت نہیں کرپاتے ۔
یہ چند واقعات ہیں جس کا یہاں اجمالی طور پر ہم نے تذکرہ کیا ہے ، ایسے واقعات کی طویل فہرست ہے اورروزانہ پیش آرہے ہیں ۔ مسلمانوں ، دلتوں ،عیسائیوں ، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بنایاجاہے ، ان کے تعلق سے اکثریتی سماج میں غلط فہمیاں پیدا کی جار ہی ہے ، سماج کو گمراہ کیاجارہاہے ، میڈیا اپنی ذمہ داری نبھانے اور حقیقت پر مبنی خبروں کو دکھانے کے بجائے اسلاموفوبیا کو فروغ د ے رہاہے اور لگاتار جھوٹ پھیلا رہاہے ۔سول سوسائٹی بھی خاموش ہے ، حقوق انسانی کے کارکنا ن بھی پہلے کی طرح فعال نہیں ہیں ۔اتنے بڑے بڑے واقعات رونما ہوجانے کے باوجود ایسا لگتاہے جیسے دیش میں کچھ ہوا ہی نہیں ہے ۔ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کیلئے سبھی اہل وطن نے قربانی دی تھی ، مسلم ، سکھ ، عیسائی ، لنگائی ، دلت ، آدی واسی سبھی آزادی کی لڑائی میں شریک تھے ، مہاتماگاندھی کی قیادت میں سبھی ایک ہوکر انگریزوں کے خلاف برسر پیکار تھے ، سبھی کی خواہش ، کوشش اور قربانیوں کا مقصد انگریزوں سے بھارت کو آزاد کرانا ، طاقتور ، خوشحال اور پرامن ملک بناناتھا ، مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ، علماءکی قیادت میں مسلمانوں نے آزادی کی لڑائی میں سب سے زیادہ حصہ لیا، علماءاور عام مسلمانوں نے گاندھی کی لیڈر شپ کو اختیار کرکے اتحاد ویکجہتی کا ثبوت پیش کیا ، یہ قربانی اور جدوجہد رنگ لائی ، ملک کو فرنگی قبضہ سے آزادی ملی ، آزاد بھارت میں ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ، تمام شہریوں کو یکساں حقوق دینے کیلئے ایک جامع اور مستحکم دستور تشکیل دیاگیا ، آئین میں سبھی کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ، آئین اور دستور کی بالادستی پر سبھی نے اتفاق کیا ، آزادی کی لڑائی اور قربانی دینے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھاکہ انگریزوں سے آزادکرانے کے بعد ایک ایسا دستور مرتب کرنا ہے جس میں قانون کی حکمرانی ہوگی ، غریبوں اور مزدورں پر ظلم نہیں ہوگا ، ذات اور مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ بھید بھاﺅ نہیں کیا جائے گا ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر عمل نہیں ہورہاہے ، آئین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے ،قانون پر عمل نہیں کیا جارہاہے ، مجرموں کو چھوٹ دی جاتی ہے ، مذہب ، ذات اور نسل دیکھ کر قانون نافذ کیا جاتاہے ۔ جن لوگوں نے آزاد ی کی جنگ میں حصہ نہیں لیا آج ان کو اہمیت دی جارہی ہے ، جن لوگوں نے قربانیاں پیش کی ان کو غدار کہاجارہاہے ، جن لوگوں نے وطن کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کردیاتھا انہیں جیل کے سلاخوں میں بند کیا جارہاہے جن لوگوں نے انگریزوں کیلئے جاسوسی کی تھی انہیں بہادری کا سرٹیفکیٹ سونپا جارہاہے ، قانون کا غلط استعمال کیا جارہاہے ، اقتدارملنے کی وجہ سے آئین کی بالادستی پر عمل کرنے کے بجائے آئین کی آڑ میں آزاد ی کیلئے قربانیاں دینے والوں کو ملک بدر کرنے اور قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی جار ہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایسے دور میں داخل ہوگئے ہیں جسے جنگل راج کہاجاتاہے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نام دیاجاتاہے ، آج کے بھارت میں یہی ہورہاہے جس سے ملک میں انارکی پھیلتی ہے ، تنزلی آتی ہے ، عالمی سطح پر وقار مجروح ہوتاہے ، ترقی رک جاتی ہے ، معیشت ختم ہوجاتی ہے ، خوشحالی بدحالی میں تبدیل ہوجاتی ہے ، مہذب ملک کی شناخت ختم ہوجاتی ہے ۔ ملک کے دانشوران ایسے حالات پر چپ کیوں ہیں؟ ججز اپنی ذمہ داری کیوں نہیں نبھارہے ہیں؟ سیاسی رہنما اور اپوزیشن لیڈران ملک کو جنگل راج بننے سے کیوں بچانے کیلئے تحریک نہیں چلارہے ہیں؟ ملک کی شبیہ خراب ہونے سے کیوں نہیں روک رہے ہیں؟ صحافی اور میڈیا ہاﺅسز کیوں اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ چکے ہیں، حقوق انسانی کارکنان انسانیت کی پامالی پر کیوں عالمی تحریک نہیں چھیڑ رہے ہیں؟ کیا سب کسی بھی مہذب ملک کی علامت ہے ؟ کیا اس سے دیش کی تنزلی شروع نہیں ہوگی ؟ کیس دنیا بھر میں بھارت کی بدنامی نہیں ہورہی ہے ؟ کیا ہمارے حیثیت مجروح نہیں ہورہی ہے ؟ کیا ہمارے بارے میں اب یہ تبصر ہ شروع نہیں ہوگیا کہ بھارت میں اقلیت محفوظ نہیں ہے ؟ ۔ کیا اب یہ نہیں کہاجانے لگا ہے کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی کہاوت صادق آرہی ہے؟ پھر ایسے سنگین حالات میں ملک کے باشعور افراد ، سرکردہ رہنما ، مختلف تنظیموں اور این اوز کے ذمہ داران اپوزیشن کے لیڈران خاموش کیوں ہیں ، اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھارہے ہیں ؟ جن لوگوں نے دیش کیلئے آزادی دی تھی کیا ان کی نسلوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ سامنے آئیں اور ایک مرتبہ پھر دیش کی آزادی ، جمہوریت ، سیکولرزم اور آئین کو بچانے کیلئے قربانی دیں؟ ۔کیا ان تمام حالات کے تناظر میں بابا صاحب بھیم راﺅ امبیڈ کر کے بنائے گئے آئین کو تبدیل کرکے منواسمرتی نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تواس میں سبھی کیلئے انصاف باقی رہے گا ۔ کیا منو اسمرتی کے نفاذ کے بعد ہر ایک کیلئے انصاف ، مساوات ، آزادی ار بھائی چارہ کا تصور برقرار رہے گا یا ختم ہوجائے گا؟کیا تمام شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی ملے گی ؟ کیا لکھنے اور بولنے کی آزادی حاصل رہے گی ؟ کیا تعلیم یافتہ نوجوان دیش کی ترقی کیلئے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے یا پھر حالات سے سمجھوتہ کرلیں گے ؟۔ (مضمون نگار معروف دانشور اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |