الیکشن 2019 کی آہٹ
ڈاکٹر محمد منظور عالم
عام انتخابات 2019 کا بگل تقریبا بج چکاہے ،سیاسی پارٹیوں نے تیاریاں شروع کردی ہے ،کانگریس ،بی جے پی اور دیگر علاقائی پارٹیوں کی سرگرمیاں جاری ہے ،ووٹ حاصل کرنے اور 2019 میں جیت کو یقینی بنانے کیلئے سبھی پارٹیاں اپنے اندا ز میں مہم چلارہی ہیں ۔اقلیت اور مسلم مخالف شبیہ کیلئے خصوصی شناخت رکھنے والی بی جے پی مسلمانوں سے ملاقات کررہی ہے ،آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ مسلمانوں کے درمیان یہ پیغام دینے میں مصروف ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس مسلم مخالف نہیں ہے ،کانگریس کی بھی تیاری جاری ہے ۔راہل گاندھی مندروں کا دورہ کرنے اور کسانوں سے ملنے کے بعد اب مسلمانوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کررکھاہے اور یوں 2019 کے میدان میں وہ بھی پوری طرح اترچکے ہیں ۔
حالیہ دنوں میں ملک کا منظر نامہ بالکل تبدل ہوچکاہے ۔نفرت اور انتہاءپسندی عروج پر ہے ۔ایک پارٹی نفرت ،انتہاءپسندی اور شدت کا سبق پڑھارہی ہے ،دسیوں مرتبہ پارٹی لیڈران تشدد اور انتہاءپسندی پر مبنی واقعات انجام دے چکے ہیں ۔قابل تعجب بات یہ ہے کہ جب جب انتہاءپسندانہ واقعات پر ان کے رہنما نے مذمتی بیان دیاہے اس کے فورا بعد پہلے سے زیادہ خوفناک واقعہ انجام دیاگیا جو یہ بتلاتاہے کہ مذمت کا ایک خفیہ کوڈورڈ ہوتاہے ۔بھکتوں اور کارکنان کیلئے ان کی باتوں کا مطلب وہ نہیں ہوتاہے جو وہ بولتے ہیں بلکہ اس کے پس پردہ کچھ اور مطلب پوشید ہ ہوتاہے ۔شہر ہو یا قریہ ہر جگہ نفرت اور انتہاءپسندی کا بول بالاہے ،ایک منصوبہ بندی او رمنظم انداز میں پورے ملک میں یہ سب پھیلاگیاہے ،خفیہ میٹنگ کے ذریعہ ،ایک دوسرے سے ملاقات کرکے نفرت کو پروان چڑھاگیاہے ،میڈیا بھی ہر جگہ ان کی مدد کرتی ہے اور اس مہم کو آگے بڑھانے اور گھر گھر تک پہونچانے میں مکمل ساتھ دیتی ہے ۔دستور پر عمل کرنے کے بجائے اس کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے ،مجرموں اور شدت پسندوں کی حوصلہ افزا کی جارہی ہے ۔حال ہی میں جیل سے ضمانت پر رہا ہونے والے گﺅ رکشک مجرموں کوبی جے پی کے ایک وزیر نے استقبالیہ دیا ہے،یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس پارٹی کی یہی علامت ہے ،انہیں ایجنڈوں پر یہ کام کرتے ہیں ،لاءاینڈ آڈر نافذ کرنے ،مجرموں اور گﺅرکشکوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے کے بجائے ان کی پشت پناہی شروع سے یہ لوگ کرتے رہے ہیں ۔ کسانوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں ۔قرض معافی کے نام پر بھدا مذاق کیا جارہاہے ،کھاد اور دیگر چیزیں مہنگی ہورہی ہیں،کسانوں سے فصل کم شرح پر لیکر مارکیٹ میں عوام تک اسے دوگناسے زیادہ قیمت پر فروخت کیا جارہاہے۔یہی وجہ ہے کہ غریب کسان خودکشی پر مجبور ہیں ۔بے روزگاری کا مسئلہ بھی گزشتہ چار سالوں میں کم ہونے کے بجائے بڑھ گیاہے ،ایک رپوٹ کے مطابق 2014 سے اب تک سالانہ صرف دو فیصد لوگوں کو ملازمت ملی ہے جبکہ یوپی اے حکومت میں ملازمت کی یہ شرح سالانہ چار فیصد تھی ۔حیرت انگیز یہ ہے کہ ملازمت کے مواقع فراہم کرنے اوربے روزگاری ختم کرنے کے بجائے وزیر اعظم سے لیکر پارٹی کے وزیر اعلی اور دیگر سبھی لیڈران روزگا کا مذاق اڑارہے ہیں ۔کبھی نوجوانوں کو پکوڑا بیچنے ،کبھی پان کی دکان کھولنے ،کبھی چائے بیچنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ تعلیم کا معیار بھی زوال کا شکار ہے ،تعلیمی اداروں میں سہولیات نہیں دی جارہی ہے ،طلبہ کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنا یا جارہاہے ۔اعلی تعلیمی نظام کو حکومت اپنے کنٹرول میں رکھنے کی منصوبہ بندی کرچکی ہے ۔یوجی سی کی جگہ ایک نئی باڈی کی تشکیل کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں میں سنگھی ذہنیت کے لوگوں کو پہونچا نا آسا ن ہوسکے ۔اس سے قبل یوپی ایس سی کے کامیاب طلبہ کو رینک کی بنیاد پر آئی اے ایس اور دیگر شعبوں میں بحال کرنے کے بجائے الگ سے تربیتی کورس شرو ع کرنے او راس کی بنیاد پر بحال کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اپنی مرضی اور ذہنیت کے لوگوں کو مختلف محکموں میں بحال کرنا آسان ہوجائے ۔آدی واسیوں ،دلتوں اور ملک کے پسماند ہ طبقات کو حاصل حقوق چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ،انہیں بھی پریشان کیا جارہاہے ۔ملک کی گنگا جمنی تہذیب سے کھلواڑ کرنے اور کثرت میں وحدت کی روایت کو پامال کرنے کی کوشش ہور ہی ہے ۔ دوسری طرف ملک کی وہ سیکولر پارٹیاں ہیں جو نفرت اور انتہاءپسندی کے خلاف بر سرپیکار ہیں ۔اس کا ایجنڈا ملک کی ترقی ،دستو ر کی بالادستی اور عوام کو تحفظ فراہم کرناہے ،ایسی پارٹیاں کئی حصوں میں تقسیم ہے ،ان میں آپسی اختلافات بھی ہیں ۔اقتدار کیلئے کبھی وہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار بھی ہوتے ہیں لیکن ایک مشترکہ ایجنڈاپر اتفاق اور ملک کو تباہی سے بچانے کیلئے ان سب کا متحد ہونا ضروری ہے ۔اتحاد کی صورت میں پارٹی لیڈروں اور اس کے کارکنان کو بہت بڑی قربانیاں دینی ہوں گی ،بہت سے امیدواروں کا ٹکٹ کٹ جائے گا ،بہت سو ں کو اپنے مخالفین کیلئے کام کرناپڑے گا لیکن ایک بڑے ہدف کے حصول کیلئے یہ سب ضروری ہوچکاہے ۔کانگریس ،ایس پی ،بی ایس پی ،آر جے ڈی ،ٹی ایم سی ،ڈی ایم کے ،جے ڈی ایس سمیت دسیوں علاقائی پارٹیاں ہیں جو دستور پر یقین رکھتی ہیں،آئین کا تحفظ ان کے نزدیک اہم ہے ،ملک میں بھائی چارہ کا ماحول قائم کرنا ان کی اولین پسند ہے ایسی پارٹیوں کو لوک سبھا انتخابات میں سیٹوں کی قربانی دینے کیلئے تیا ررہنا ہوگا ۔ایک دوسرے کے ساتھ افہام وتفہیم کرکے ایک مشترکہ پروگرام بنانا ہوگا ۔اس لئے یہ سوال اٹھ رہاہے کہ کیا علاقائی پارٹیاں متحد ہونے ،قربانیاں دینے اور اپنی شرطوں کو بالائے طاق رکھنے کیلئے تیار ہیں؟،اگر ایسا نہیں ہوتاہے تو ملک میں نفرت کے بڑھتے سلسلے کو روکنا آسان نہیں ہوگا اور بھائی چارگی کے جذبے کو فروغ دینے میں بہت دشوار ہوگی ۔ ایک تیسرا پہلو یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی میں مسلمانوں اور دیگر اقلیات کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ،ان کی پالیسی ہی مسلمانوں کے خلاف ہے ،ان کا سیاسی ایجنڈا ہی مذہب اور شدت پسندی پر مبنی ہے لیکن کانگریس اور جو دوسری سیکولر پارٹیاں ہیں وہاں بھی مسلمانوں کی نمائندگی برائے نام ہے ،پالیسی ساز اداروں میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جاتاہے ۔مسلمانوں سے قربانیاں طلب کی جاتی ہیں ،حب الوطنی کا امتحان لیاجاتاہے ،ہر طرح کی جدوجہد کرائی جاتی ہے لیکن جب پالیسی سازاداروں اور اہم شعبوں میں جگہ دینے کا مطالبہ ہوتاہے تو کہاجاتاہے کہ اس سے پولرائزیشن ہوگا ۔ہندومنتشر ہوجائیں گے ۔یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جس طرح نفرت کی مہم جاری ہے ،جس طرح مسلمانوں کو بدنام کیاجاتاہے ،میڈیا کی خریدوفروخت کا جو سلسلہ جاری ہے اس میں پولرائزیشن کا احتمال اور بڑھ جاتاہے ۔لیکن ایک بڑی اقلیت کو درکنار کرنا ملک کی ترقی کیلئے غیر مناسب ہے ،ایک wholisticمنصوبہ ہونا چاہیئے جس میں مسلمان سمیت سبھی اقلیت کی مناسب نمائندگی نظر آئے تاکہ مسلمان سمیت سبھی کمزور طبقات خوف وہراس کے ماحول سے باہر نکل پائیں ۔ ایک اندیشہ یہ بھی رہتاہے کہ مسلمانوں سے کام کرایاجاتاہے ،ان سے قربانیاں طلب کی جاتی ہے اور جب مسلمانوں کیلئے کچھ کرنے کا موقع آتابھی ہے تو ایسے لوگوں کو آگے بڑھایاجاتاہے جن کا نام مسلمانوں جیسا ہوتاہے ۔میرا خیال ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو اپنے پالیسی ساز ادارے اور دوسرے شعبے میں ان مسلمانوں کو نمائندگی کا موقع دینا چاہیئے جن کی عوام کے درمیان ایک اہمیت ہو ،اثر ورسوخ ہو، عوام کا ان پر اعتماد ہو،عوام کو ان سے امید ہو اور اپنی زندگی میں وعملی طور پر متحر ک وفعال بھی ہوں ۔ دستور کی حفاظت عوام کی بھی ذمہ داری ہے ،ہمارے اسلاف نے جب آئین تشکیل دیاتھا تو اس وقت جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا ”عوام کی جانب سے عوام کیلئے“ ،یہ قانون او ردستور بھی عوام کے حقوق کے تحفظ اور اختیار ات کیلئے ہے اس لئے آئین او ردستور کے تحفظ کی فکر کرنا،اس کی بالادستی قائم رکھنے کی کوششیں کرنا عوام کی بھی اہم ذمہ داری ہے ۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیئے کہ ایک طرف جہاں یہ زبان زد ہے کہ الیکشن 2019 کے دن قریب آچکے ہیں ۔وہاں یہ بھی غالب گمان ہے کہ مارچ 2019 میں عام انتخابات کرائے جانے کے بجائے دسمبر 2018 میں ہی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیاجائے ۔ ملک کے سیاسی پنڈٹ اور ذی ہوش دانشوران باربار اس کی جانب اشارہ بھی کررہے ہیں ۔ اس لئے بیدار رہنا اور الیکشن کا سامنا کرنے کا مکمل حوصلہ رکھنا تمام سیاسی پارٹیوں اور عوام کی اہم ذمہ داری ہے ۔کچھ بھی ہوسکتاہے اس لئے عوام ،سیکولر پارٹیوں اور سماجی تنظیموں کو ہمیشہ وہر وقت بیدار رہنا چاہیے تاکہ جب بھی الیکشن کے وقت کا اعلان کیا جائے ووٹ کا صحیح استعمال ہوسکے ۔لائق لوگوں کو ملک کے اقتدار پر لانے کی راہ ہموارہو ،ایسا نہ ہوکہ ذہنی طور پر آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے ووٹر خوف زدہ ہوجائیں اور غلط ووٹ ڈالنا شروع کردیں اس کے علاوہ اس دوران یہ بھی کام کرنا ضروری ہے کہ ووٹرلسٹ پر توجہ دی جائے ،ہر شہری اپنا نام چیک کرے کہ ووٹر لسٹ میں اس کا نام ہے یا نہیں ،جس کا نہیں ہے اور وہ اگر 18 سال کا ہے تو اپنا نام لازمی درج کرائے تاکہ ووٹ دینے کا حق مل سکے ۔ بہر حال الیکشن کا بگل ابھی نہیں بجا ہے لیکن اس کی گھنٹیاں ہر طرف سے بجنی شرو ع ہوچکی ہے ،ہمارے ملک کے شہری اور ووٹرس سمجھدار اور ذی ہوش ہیں ،انشاءاللہ 2019 کے عام انتخابات میں مکمل ذمہ داری کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے عقل اور ہوشمندی سے کام لیں گے ۔جذباتیت سے اوپر اٹھ کر سوچ سمجھ کر ،بہرہ گونگا نہ ہوکر اپنے ووٹ ڈالیں گے ۔ (مضمون نگار معروف دانشور و آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں ) |