معاشرہ اور سماج کی ترقی کیلئے انصاف کا بول بالا ضروری
ڈاکٹر محمد منظور عالم
معاشرہ اورملک کی ترقی انصاف کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔معاشرتی انصاف ، سماجی ہم آہنگی اور فسادات کی روک تھام ہی معاشرہ اور ملک کی ترقی کی ضامن ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور ملک اس وقت ہی حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ کہلاسکتاہے جب وہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتاہے۔ عوام کی جان و مال اور عزت محفوظ ہوتی ہے۔ جہاں عوام کو حق بات کہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے، وہ بلا خوف و خطر آزادی سے زندگی گزار تے ہیں۔ عوام کو یہ یقین ہو کہ کوئی بھی ان پر ظلم کرے گا تو اس سے اس کا حساب لیا جائے گا۔ قانون پر عمل کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دی جائے گی ۔ عدلیہ سے انصاف ملے گا ۔پولس ایمانداری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دے گی ، جانچ ایجنسیاں تعصب سے کام نہیں لے گی ۔ ظالموں اور مجرموں کو آئندہ ظلم اور جبر کرنے کی جرات نہیں ہوسکے گی ۔ اقلیت اور اکثریت کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی ، نسل ، ذات ، علاقہ اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر معاشرے میں نا انصافی کا دور دورہ ہوگا ، عدالتوں میں انصاف نہیں ہوگا ، ججز انصاف کرنے کے بجائے فیصلہ سنانے لگیں گے ،پولس اور انتظامیہ اقلیتوں اور کمزوروں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کرے گی، اقلیت اور اکثریت کے درمیان امتیاز برتا جائے گا۔ ذات ، نسل، نسب ،علاقہ اور مذہب کے نام پر کسی کو کمتر سمجھا جائے گا تو معاشرہ تمام برائیوں کا گڑھ بن جائے گا۔ ہر طرف انارکی پھیل جائے گی ، غریبوں اور کمزوروں کا جینا مشکل ہوجائے گا ، سماج افراتفری اور تباہی کا شکار ہوجائے گا۔ کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں ہوگی۔ معاشرہ میں امن وسکون کا مکمل طور پر فقدان ہوجائے گا ۔
کامیابی معاشرہ کی ایک خوبی اور شناخت دولت کی برابر تقسیم اور اقتصادی بنیادپر برابر ی ہوتی ہے ۔ یعنی اقتصادی نظام اس طرح تشکیل دیا جائے کہ پوری معیشت پر کسی ایک شخص کا کنٹرول نہ رہے ، ہر ایک کو روزگار فراہم ہو ، ملازمت ملے ، تجارت کرنے مواقع میسر ہوں ، ایسا نہ ہو کہ چند لوگ ہی پوری دولت پر قابض ہوجائیں اور بقیہ لوگ ان کے محتاج بن جائیں اور پھر جیسے چاہے عوام کو مجبور کیا جائے ، اقتصادی مساوات بنیادی ضرورت ہے ، حالیہ دنوں میں پوری دنیا کا سماج افراتفری کا شکار ہے ، بھید بھاﺅ پایاجاتاہے ، نفرت اور فرقہ پرستی کو بڑھاوا دیاجارہاہے ، غربت بڑھتی جارہی ہے ، غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ، کمزور اور غریب لوگوں کو مقروض بنایاجاجارہاہے جو سماج کو یقینی طور پر تباہ وبرباد کردے گا اور پوری دنیا چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کو غلام بن کررہ جائے گی ، پھر انصاف ، مساوات اور آزادی عوام سے سلب کرلی جائے گی ، چند مٹھی بھرلوگوں کے ہاتھوں میں پورے عالم کا نظام آجائے گا اور یہ اس لئے ہوگا کیوں کہ مساوات پر مبنی اقتصادی نظام ہمارے یہاں نہیں ہے اس لئے ارباب اقتدار ، دانشوران اور ماہرین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ معیشت اور اقتصادیات کے میدان میں ایک جامع نظام تشکیل دیں جس میں برابری ہو ، ہر ایک کی شمولیت ہواوردولت کی تقسیم میں زیادتی اور نا انصافی نہ ہو کیوں کہ جب تک دولت کی تقسیم کار میں انصاف کا پیمانہ اختیار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک معاشرہ میں امن وسکون کا فقدان ہوگا اور ایک مثالی معاشرہ کا وجود ناممکن سمجھاجائے گا ۔ انصاف کے بغیر کسی بھی قوم کے لئے خوشحالی ، امن وسلامتی کے قیام ، جہالت اور غربت کے خاتمے کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس نے انصاف کئے بغیر ترقی حاصل کی ہو۔ اقلیت اور اکثریت کے درمیان تفریق پیدا کرکے ملک ترقی یافتہ بن گیا ہو ۔ ذات ، نسل ، نسب ،زبان اور مذہب کی بنیاد پر بھید بھاﺅ کرنے کے باجود اس ملک میں خوشحالی آئی ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتاہے ۔ خوشحالی ، ترقی ، ہم آہنگی ، امن وآشتی، غربت کے خاتمہ ، علم کے فروغ اور دنیا کے طاقتور ممالک کی صفوں میں شامل ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہاں ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے ، مساوات کیا جائے ، عدل وانصاف کو ترجیح دی جائے ۔ اقلیت ، مذہب ، نسل اور ذات کی بنیاد پر ذرہ برابر بھی تفریق نہ برتی جائے اور تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے جس ملک نے بھی اپنے عوام کے درمیان تفریق برتی ہے ، تمام شہریوں کو یکساں حقوق نہیں دیا ہے ، مذہبی اقلیتوں کو بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی سے محروم کیاہے وہ ملک تباہ وبرباد ہواہے ۔عوام غربت کا شکار ہوئی ہے اور ترقی یافتہ ہونے کا خوا ب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ملک کے جو حالات ہیں وہ اس کیلئے ذمہ دار کون ہے ، کیا قانون کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ آئین اور دستور پر عمل کیوں نہیں کیا جاتاہے ۔ کیا جس طرح کی افراتفری اور بے چینی ہے ، ہنگامہ آرائی اور قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے اس میں ملک کی ترقی ممکن ہے ۔آئین اور دستور پر عمل نہیں ہوگا تو ملک کی ترقی کیسے ہوگی ۔ بے روزگاری بڑھتی رہے گی ، لوگوں کو روزگار نہیں ملے گا تو ملک کی ترقی کیسے ہوگی ۔آئین اور دستور کی حفاظت عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے ایسے میں عوام کے من میں یہ بھی سوال ہے کہ کیا عدلیہ آئین کی حفاظت کرے گی ۔ کیا عوام پر قانون کا اثرا ہوگا ۔ کیا خود مختار ادارے اپنی آزادی برقرار رہ سکیں گے ۔ ریضرب بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے جو مشورہ دیاہے کیا اس کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے جس میں انہوں نے کہاکہ ملک کی اقلیت مخالف تصویر کی یہاں کی معیشت پر برا اثر پڑے گا ۔بیرون ممالک سے رشتے خراب ہوجائیں گے ، باہر کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری روک دے گی ، سفارتی تعلقات میں بھار ت پیچھے رہ جائے گا ، اقلیت مخالف تصویر بن جانے کی وجہ سے دنیا کی نظروں میںیہ ایک غیر محفظ ملک بھی سمجھاجائے گا اور ان سب کا برا اثر یہاں کی معیشت پر پڑے گا ۔ اس لئے ضرروی ہے کہ آئین کی بالادستی اور قانون کے نفاذ کو یقینی بنایاجائے ، عدلیہ انصاف کی فراہمی آور آئین کے تحفظ کی ذمہ داری نبھائے ۔ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں اورملک کی اقلیت مخالف جو تصویر بن رہی اس کے پیچھے جو اسباب وجوہات ہیں اس پر بند ش لگائی جائے ، اقلیتوں ، دلتوں ، کمزوروں، آدی واسیوں اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی ، نا انصافی اور بھید بھاﺅ کو روکا جائے ۔ سبھی کو برابر دجہ کے حق دیا جائے ، کسی بھی کمیونٹی کو مذہب ، نسل اور علاقہ کی بنیاد پر پریشان کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے تاکہ دنیا بھر میں یہ پیغام جائے کہ بھارت میں امن وآشتی ہے ، اتحاد واتفاق ہے ۔ اقلیتوں کو مکمل حقوق دیئے جاتے ہیں ۔ کسی پر وہاں ظلم وستم نہیں کیا جاتاہے ۔ پسماندگی کے خاتمہ ، علم کے فروغ ، غربت کے خلاف جنگ ، مساوات پر مبنی اقتصادی نظام کی تشکیل کے ساتھ اکرام انسانیت بھی ضروری ہے ۔ معاشرہ اور ملک کی ترقی اسی وقت ہوگی جب اکرام انسانیت کے مشن کو عملی جامہ پہنایاجائے گا ، انسانوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں بر تی جائے گی ، ہر ایک کو عزت اور عظمت دی جائے گی ، کسی کو بھی اس کی نسل ، ذات ، علاقہ ، زبان ، رنگ اورمذہب کی بنیاد پر کمتر ، حقیر اور گھٹیا نہیں گردانا جائے گا کیوں کہ وہ انسان ہے اور بطور انسان سبھی برابر ہیں ، یکساں حقوق کے حقدار ہیں اور یہی تحریک اور مشن معاشرہ او رملک کو ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار نبھاتے ہیں اس لئے مذکورہ تمام امور کے ساتھ اکرام انسانیت ضروری ہے تبھی ہمارا ملک اور معاشرہ ترقی یافتہ بن سکتاہے۔ (مضمون نگار آل انڈیاملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |