2014کے
لوک
سبھا
انتخابات
اور
آر
ایس
ایس
کی
حکمت
عملی
ڈاکٹرمحمد
منظور
عالم
آنے
والے
لوک
سبھا
انتخابات
میں
راشٹریہ
سیویم
سیوک
سنگھ
(آر
ایس
ایس)
نے
جس
طرح
ایک
فکری
تنظیم
ہونے
کے
ناطے
اپنے
سیاسی
ونگ
بھارتیہ
جتنا
پارٹی
(بی
جے
پی)
کے
ذریعہ
پورے
ماحول
پر
اثر
انداز
ہونے
کی
کوشش
کی
ہے
وہ
شک
وشبہ
سے
بالاتر
ہے۔
بنیادی
بات
یہ
ہے
کہ
سیاسی
نہ
ہونے
کے
باوجود
سیاست
کے
میدان
میں
آر
ایس
ایس
کی
دلچسپی
کیوں
ہے؟
اس
کے
ذریعہ
وہ
کیا
حاصل
کرنا
چاہتی
ہے
جیسے
سوالات
اس
بات
کے
متقاضی
ہیں
کہ
ان
کا
جواب
تلاش
کیا
جائے
اور
اس
کی
روشنی
میں
مسلمان
خود
کو
اس
سے
بچانے
اور
اس
کے
سیاسی
عزائم
کو
روکنے
کی
کوشش
کریں۔
اس
پس
منظرمیں
بی
جے
پی
کی
حکمت
عملی
سے
زیادہ
آر
ایس
ایس
کی
حکمت
عملی
کو
سمجھنے
کی
ضرورت
ہے
کیونکہ
اس
نے
بی
جے
پی
کو
یہ
پیغام
دے
دیا
ہے
کہ
وہ
وہی
کرے
جو
آر
ایس
ایس
کافیصلہ
ہوگا
خواہ
مودی
کو
الیکشن
انچارج
بنانے
کی
بات
ہو
یا
داغی
لیڈروں
کو
پارٹی
میں
شامل
کرنے
کا
معاملہ
ہو
یا
وزیر
اعظم
کے
طور
پر
کسی
لیڈر
کے
نام
کا
اعلان
کرنا
ہو
حتی
کہ
انتخابی
حلقہ
کے
حوالے
سے
اڈوانی
کے
ذریعہ
یہ
سبق
دیا
جارہا
ہے
کہ
جس
شخص
کی
محنت
اور
قربانی
کے
سبب
پارٹی
اس
مقام
پر
پہونچی
ہے
اور
اس
شخص
نے
پارٹی
کو
اس
مقام
تک
پہونچانے
میں
انسانوں
کے
خون
کو
ارزاں
کردیا
تھا
،
ملک
کی سیکولر
فضا
کو
زہر
آلود
کردیا
اور
سماج
کو
فرقہ
وارانہ
خطوط
پر
منقسم
کردیا،
کی
بھی
کوئی
حیثیت
نہیں
ہے۔
بی
جے
پی
آر
ایس
ایس
کا
ایک
ایسا
ٹول (پرزہ)
ہے
جسے
آر
ایس
ایس
حسب
ضرورت
اپنی
مرضی
کے
مطابق
استعمال
کرتی
ہے۔
آر
ایس
ایس
کے
یہ
ٹول
اقلیتوں
میں
نفرت
پھیلانا،
سیکولر
فیبرک
کو
توڑنا،
سوسائٹی
کے
کمپوزٹ
کلچر
کو
تباہ
وبرباد
کرنا،
ذات
برادری
کو
آپس
میں
لڑانا،
دنگا
فساد
بھڑکانہ،
اور
پولورائزیشن
کو
اپنے
حق
میں
کرنے
کے
استعمال
کرنا
ہے۔
دوسری
جانب
میڈیا
کو
اپنی
آئیڈیالوجی
سے
قریب
کرنا
جس
سے
آر
ایس
ایس
کے
سپہ
سالار
مودی
کے
جھوٹ
پر
پردہ
پڑا
رہے
اور
وہ
عوام
کی
نگاہوں
سے
پوشیدہ
رہے
اس
کے
برعکس
اس
کے
چھوٹے
موٹے
کاموں
کو
اس
طرح
پیش
کیا
جائے
کہ
وہ
ماڈل
لیڈر
کے
طور
پر
نظر
آئیں
جسے
ڈیولپمنٹ
یا
آ
ہنی
آدمی
کی
شکل
میں
پیش
کیا
جائے۔
تیسری
جانب
مختلف
طبقات
بشمول
مسلمانوں
میں
کنفیوژن
کیسے
بڑھایا
جائے
اور
اس
کے
قتل
عام
پر
پردہ
پوشی
کرنے
کے
لئے
گڈگورننس
کا
نعرہ
کیسے
دیا
جائے،
دستور
کے
تانے
بانے
کو
توڑ
کر
دنیا
میں
جو
تبدیلی
ہو
رہی
ہے
اس
کا
ماڈل
بناکر
کیسے
پیش
کیا
جائے
او
رملک
ودستور
کو
بونا
بنانے
یا
اسے
فرسودہ
بتانے
کی
کیسے
کوشش
کی
جائے۔
اس
کام
کے
لئے
جتنے
بھی
حربے
ہوسکتے
ہیں
ان
سب
کا
بیک
وقت
استعمال
کیا
جارہا
ہے۔
اسی
طرح
ان
لیڈروں
کو
جنھوں
نے
ہمیشہ
دلتوں
اور
کمزور
طبقات
کے
مفادات
اور
مسلمانوں
سے
ہمدردی
دکھانے
میں
اپنی
پوری
زندگی
گذاردی
انھیں
نیوبر
ہمن
لابی
میں
شامل
کرنے
کا
لالچ
دیکر
ان
طبقات
کو
دستوری
فائدے
کے
بجائے
نقصان
کیسے
پہونچایا
جائے،
کی
کوشش
ہوری
ہے۔
ان
تمام
حقائق
کے
باوجود
میڈیا
نے
اسے
موضوع
بحث
نہیں
بنایا۔
میڈیا
نے
کرپشن
کے
ایشو
کو
بہت
زور
شور
سے
اٹھایا
کیونکہ
میڈیا
نے
آر
ایس
ایس
کی
فلاسفی
اور
مودی
کو
دولت
مندوں
کی
آواز
بنانا
ٹھان
لیا
تھا۔
اس
لئے
اس
نے
کرپشن
کو
ایشو
بنادیا
جس
کے
نتیجہ
میں
فسادات
بے
معنی
ہوگئے۔
مودی
کا
مجرمانہ
عمل،
مودی
کے
دور
میں
ہوا
قتل
عام
اور
لگاتار
ہوئی
ناانصافیاں
جس
میں
مسلمانوں
کو
مرکزی
حکومت
کی
اسکالر
شپ
دینے
سے
انکار
وغیرہ
شامل
ہیں،
سکھوں
سے
زمین
چھین
لیں۔
ان
سب
ایشوز
کو
میڈیا
نے
کنارے
کردیا
اور
جس
کے
لئے
میڈیا
کی
حمایت
سے
کئی
تحریکیں
اٹھیں
ان
میں
ایک
بابارام
دیو
تھے
جنھیں
آزمایا
گیا
اس
نے
بڑی
بڑی
ریلی
کی
اور
اپنے
انکار
کے
بعد
کہ
ہمارا
آر
ایس
ایس
سے
کوئی
تعلق
نہیں،
جھوٹ
زیادہ
دیر
چھپ
نہیں
سکا
اور
بلی
تھیلے
سے
باہر
آگئی
اور
آر
ایس
ایس
سے
اپنے
تعلق
کا
عتراف
کرلیا۔
اسی
طرح
انا
ہزارے
کی
معصومیت
کو
استعمال
کرتے
ہوئے
بڑی
تحریک
چلائی
گئی
انا
جو
کہ
صاف
ستھری
امیج
رکھتے
تھے
ان
کا
شکار
ہوگئے۔
انھو
ں
نے
بھی
کمیونلزم
کی
بات
نہیں
کی۔
آر
ایس
ایس
او
رمودی
کے
ہاتھ
جو
خون
سے
لال
تھے
کا
کوئی
ذکر
نہیں
کیا
جس
کے
نتیجہ
میں
صرف
کرپشن
بڑا
ایشو
بن
گیا۔
اس
کرپشن
میں
بی
جے
پی
کی
حکومت
اور
پارٹی
دونوں
شامل
تھی
چاہے
وہ
یدورپا
کی
شکل
میں
ہو
یا
بنگارو
لکشمن
کی
شکل
میں
یا
پھر
جارج
فرنانڈیز
کی
شکل
میں
ہو۔
اس
مہم
کے
اثرات
یہ
پیدا
ہوئے
کہ
مختلف
سیاسی
پارٹیاں
جو
اکٹھا
ہو
رہی
تھیں
انھوں
نے
یہ
نعرہ
دینا
شروع
کردیاکہ
بی
جے
پی
اور
کانگریس
کو
چھوڑ
کر
ہم
تھرڈ
فرنٹ
بنائیں
گے
کیونکہ
کرپشن
کی
مہم
برسر
اقتدار
کانگریس
پارٹی
کے
خلاف
تھی
اس
لئے
ماحول
میں
شدت
قتل،
کمیونلزائش،
نفرت
پھیلانے
والی
چالیں
جس
کی
مثال
امت
شاہ
کی
شکل
میں
سامنے
آیا
کمزور
پڑگیا۔
اس
میں
ایک
مکمل
پلان
بھی
پوشیدہ
ہے
وہ
پلان
یہ
ہے
کہ
دستور
میں
ترمیم
کرنا
ہے۔
یہ
ترمیم
اس
لئے
کرنا
ہے
تاکہ
جو
قانون
بنے
وہ
مودی
اڈوانی،
سادھوی
رتھمبرا
اور
اومابھارتی
وغیرہ
تک
نہ
پہونچے
لیکن
اس
سے
بھی
بڑا
پلان
یہ
تھاکہ
قانون
کے
ہاتھ
لمبے
ہوتے
ہیں
کے
محاورے
کو
ختم
کردیا
جائے
یعنی
قانون
کے
ہاتھ
کو
ہی
کاٹ
دیاجائے
تاکہ
وہ
کسی
کی
گردن
کو
نہ
ناپ
سکے۔
آر
ایس
ایس
کی
پلاننگ
کا
ایک
حصہ
مسلمانوں
میں
کنفیوژن
کیسے
بڑھایا
جائے۔
اس
کے
لئے
مسلمانوں
کی
مختلف
اہم
قیادت
سے
کھلے
چھپے
ملاقاتوں
سلسلہ
کا
شروع
کیا
گیا۔
کبھی
فرقہ
وارانہ
ہم
آہنگی
کے
نام
پر
تو
کبھی
کسی
دوسرے
نام
سے۔
چاہے
مسلمانوں
کی
علامت
(ٹوپی)
پہننے
سے
انکار
ہی
کیوں
نہ
کرنا
پڑا
ہو۔
ان
ملاقاتوں
کو
میڈیا
نے
خواہ
وہ
الیکٹرانک
ہو
یا
پرنٹ
میڈیا
نمایاں
طور
پر
پیش
کیا۔
اس
کے
اثرات
یہ
ہوئے
کہ
کسی
نے
کہا
کہ
اگر
مودی
معافی
مانگ
لے
تو
اس
کے
بارے
میں
غور
کیا
جاسکتا
ہے
کسی
نے
یہ
کہا
کہ
مودی
سے
کسی
طرح
کا
کوئی
ڈر
نہیں
کیونکہ
سیکولر
پارٹیوں
سے
مسلمانوں
کو
زیادہ
نقصان
پہونچا
ہے،
کسی
نے
کہا
کہ
گجرات
کے
مسلمان
بہت
سکون
سے
رہ
رہے
ہیں
تو
کسی
نے
یہ
کہا
کہ
مودی
کی
گورننس
زیادہ
بہتر
ہے
تو
کسی
نے
وکالت
کی
کہ
ہر
ایک
پارٹی
سے
ملنا
چاہئے
جس
میں
مودی
اور
بی
جے
پی
بھی
شامل
ہوسکتی
ہے۔
ان
بیانات
کا
ظاہری
اثر
یہ
ہونے
لگا
کہ
بی
جے
پی
کو
بھی
اپنا
چہرہ
سیکولر
بناکر
پیش
کرنے
میں
مدد
ملنے
لگی
اور
خود
بی
جے
پی
کے
موجودہ
صدر
نے
یہ
کہا
کہ
پارٹی
معافی
مانگنے
کو
سوچ
سکتی
ہے
اگر
اس
سے
کوئی
غلطی
ہوئی
ہو۔
اس
تجاہل
عارفانہ
بیان
کو
بھی
مسلمانوں
کے
درمیان
ایک
مثبت
پہل
قرارد
یا۔
یہ
مسلم
لیڈروں
کی
سوچ
کی
مجبوری
بھی
ہوسکتی
ہے
اور
لاعلمی
بھی
کہ
ان
میں
آر
ایس
ایس
کی
چال
کو
سمجھنے
کی
عدم
صلاحیت
نظر
آرہی
ہے۔
آر
ایس
ایس
کی
یہ
بھی
حکمت
عملی
رہی
ہے
کہ
ملک
کے
سرمایہ
دار
ہوں
یا
بین
الاقوامی
سرمایہ
دار
یا
کارپوریٹ،
اپنی
آواز
کو
بلند
کرنے
کے
لئے
مودی
کو
اس
طرح
پیش
کیا
کہ
گویا
مودی
فیصلے
لینے
کی
صلاحیت
رکھتا
ہے
اور
ملک
کی
ترقی
میں
آر
ایس
ایس
کا
رول
ہوسکتا
ہے۔
اس
کے
نتیجہ
میں 93
فیصد
کارپوریٹ
ورلڈ
نے
مودی
کو
اچھا
لیڈر
کے
طور
پر
حمایت
کرنے
کا
اعلان
کردیا۔
یہ
اعلان
میڈیا
کی
زینت
بنا
اور
عوام
کو
مستقبل
کی
اقتصادی
ترقی
کا
خوبصورت
خاکہ
دینے
کی
بات
کہی
گئی
اور
اس
میں
اس
بات
پر
زور
ڈالا
جانے
لگا
کہ
عوام
نے 65
سال
کانگریس
کو
موقع
دیاہے
تو 5
سال
مودی
یا
آر
ایس
ایس
کو
بھی
موقع
دیں۔
سوال
یہ
ہے
کہ
یہ
موقع
کس
چیز
کے
لئے،
دستور
کے
دیباچہ
کو
ختم
کرنے
کے
لئے
ناانصافیوں
کو
بڑھانے
کے
لئے۔
قتل
کو
چھپانے
،
قانون
کو
کمزور
کرنے
اور
طاقتورکو
مزید
طاقتور
بنانے،
غریب
کو
مزید
غربت
میں
ڈھکیلنے،
روپیہ
کو
چند
ہاتھوں
میں
محدود
کرنے،
ساری
چیزیں
ایسی
ہیں
جسے
دستور
نے
بنیادی
حقوق
کے
نام
سے
درج
کر
محفوظ
کیا
ہے۔
انصاف
کی
حصولیابی،
اظہار
رائے
کی
آزادی،
بھائی
چارگی
کو
پروان
چڑھانے
یہ
سب
بنیادی
حقوق
ہیں
لیکن
اگر
یہ
چیز
پامال
ہوجائے
تو
کیا
یہاں
کی
گنگا
جمنی
تہذیب
برقرار
رہ
سکے
گی؟
کیامختلف
قسموں
کے
پھول
ایک
گلدستہ
میں
شامل
ہوسکتے
ہیں؟
اور
سماج
کے
کمزور
طبقات
بشمول
اقلیتیں
اس
ملک
میں
بحیثیت
ایک
شہری
کے
اپنا
کردار
ادا
کرسکتے
ہیں؟
(مضمون
نگار
آل
انڈیا
ملی
کونسل
کے
جنرل
سکریٹری
ہیں))
Back Home
|