موجودہ مسائل کے حل کے لیے ایمانی جرأت وفراست لازمی

ڈاکٹر محمد منظور عالم، جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل

برائیاجلاس پٹنہآل انڈیا ملی کونسلمؤرخہ: 12-14/ نومبر 2021 مقام: فیڈرل میرج ہال، پھلواری شریف، پٹنہ (بہار)

صدر محترم، رفقائے گرامی، دانش وران قوم وملت اور محترم سامعین!

آل انڈیا ملی کونسل کے 21/ ویں سالانہ اجلاس مجلس عمومی میں آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ بلاشبہ یہ بڑی مبارک قربانی ہے، جس میں آپ سب شریک ہیں۔ اپنے وقت اور جان ومال کا ادنیٰ درجہ بھی ملت کے لیے لگانا بڑی سعادت کی بات ہوتی ہے۔ اللہ کا فضل ہے کہ اس وقت ہم لوگ حسب توفیق اس سعادت کو حاصل کر رہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کی دولت عطا فرمائے اور ہم لوگوں کا یہاں جمع ہونا ملک وملت کے لیے کارگر ثابت ہو۔

محترم حضرات!

جن حالات میں آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے، یہ حالات اُن حالات سے کافی مشابہت رکھتے ہیں، جو آل انڈیا ملی کونسل کے قیام کے وقت ملک میں پیدا کر دیے گئے تھے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ سن 1992 میں پورے ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا گیا تھا اور ہندستان کی اصل شناخت سمجھی جانے والی جمہوریت، سیکولرزم اور کثرت میں وحدت کو خاک میں ملا دیا گیا تھا۔ ایسے حالات میں آل انڈیا ملی کونسل کے کارواں نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ الحمدللہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی سرپرستی، فقیہ العصر مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی قیادت اور دوسرے متعدد عظیم المرتبت علما ودانش وران کی رفاقت کے نتیجے میں کونسل نے متعدد سنگ میل طے کیے۔ خدا کے فضل سے آج بھی کونسل کو ملک کے معتبر علما اور دانش وران کی رہنمائی اور سرپرستی حاصل ہے۔ اس لیے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کونسل میں ملت کی قیادت اور ملک کی حفاظت کی پوری پوری صلاحیت آج بھی موجود ہے۔ اگر منتشر صلاحیتوں کو منظم منصوبہ بندی اور ایمانی جرأت ومومنانہ فراست کے ساتھ یکجا کرکے آگے قدم بڑھایا جائے تو ان شاء اللہ منظرنامہ تبدیل ہونے لگے گا اور اچھے نتائج سامنے آنے لگیں گے۔

ہندستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری کے آخر ی دور میں قدم رکھ دیاتھا۔ پھر دسویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی یہاں باضابطہ سلطنت بن گئی۔ پندرہویں صدی میں مغلوں نے یہاں آکر ہندستان کی تقدیر بدل دی۔ دنیا کی عظیم حکومتوں کے مقابلے میں ہندستان کو لاکھڑ ا کیا۔ اس کارقبہ کئی ملکوں تک وسیع کردیا۔ آگے چل کر انگریزوں نے ملک پر قبضہ کرلیا تو مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ چھیڑ دی۔ تحریک آزادی نے زور پکڑا تو براداران وطن نے بھر پور ساتھ دیا اور بالآخر 1947 میں ہندستان آزاد ہوگیا۔ ایک آزاد، سیکولر اور جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ تمام شہریوں کو بغیر کسی مذہبی،لسانی اور علاقائی تفریق کے یکساں حیثیت دی گئی۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، دلت، پس ماندہ طبقات اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے ایک ساتھ رہنے کا عزم کیا، لیکن افسوس کہ ملک میں فرقہ پرست عناصر بھی اپنے پاؤں پھیلاتے رہے۔ نتیجے کے طور پر گاندھی جی کے قتل سے لے کر حال میں ہونے والی تری پورہ مسلم نسل کشی کے سانحے تک فرقہ پرستی کی دہشت اور بربریت کا ننگا ناچ نظر آتا ہے۔ ستر برسوں کے دوران ہندستان کی جمہوری تصویر کو بدلنے کی مسلسل کوششیں کی جاتی رہیں۔ اس لیے آج سماج میں نفرت اور فرقہ پرستی پنپ رہی ہے، مذہبی منافرت کو اہمیت دی جارہی ہے اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس سے دستور ہند کی روح پامال کی جاسکے اور ہندستان کی حقیقی تصویر کو دنیا کی نظروں میں پوری طرح بدلا جاسکے۔

یہاں یہ بات بہت اچھی طرح سے واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حالات کا مقابلہ کرنا، مشکلات کا سامنا کرنا، چیلنجز قبول کرنا اور اسلامی تعلیمات کو اپنا کر دنیا میں نہ صرف یہ کہ اپنا وجود باقی رکھنا بلکہ دنیا کی قیادت اور رہنمائی کے لیے خود کو تیار کرنا مسلمانوں کی نمایاں صفت رہی ہے۔ ہر دور میں مسلمانوں نے اس سمت کوشش کی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسے متعدد مواقع ملتے ہیں، جن میں ہمیں نظر آتا ہے کہ پورا عالم اسلام پژمردگی اور بربادی کی کگار پر تھا، لیکن اچانک منظرنامہ بدلتا ہے اور دنیا کے نقشے پر کوئی عظیم رہنما یا کوئی عظیم معاشرہ وجود میں آجاتا ہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی کی معرکہ آراء کتاب تاریخ دعوت وعزیمت اسی بنیادی نکتے کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے کہ اسلام کے اندر ایسی روح کارفرما ہے، جو اپنے ماننے والوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ انھیں طویل مدت تک منظرنامے سے غائب رہنے نہیں دیتی۔ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں مسلمان کسی نہ کسی طرح اپنی سربلندی اور نشأۃ ثانیہ کا انتظام کر ہی لیتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ایمانی جرأت اور مومنانہ فراست کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کبھی مسلمانوں نے حوصلے سے کام نہیں لیا، حالات سے گھبرا کر بزدلی اختیار کرلی، حکمت سے کام لینے کے بجائے خوف اور ڈر کو خود پر سوار کرلیا تو انھیں ذلت ورسوائی کا سامناکرنا پڑا۔ ہمیں یقین ہے کہ آج کے گئے گزرے حالات میں بھی ملت اسلامیہ کے اندر وہ اسلامی روح کارفرما ہے، جو اسلام کا طرہئ امتیاز اور اس کی اصل شناخت ہے۔ اس لیے ہم موجودہ حالات سے فکرمند تو ہیں لیکن مایوس قطعاً نہیں ہیں۔

ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ آپسی اتحاد واتفاق مسلمانوں کی بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں اتحاد واتفاق کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں کو واضح ارشاد ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں اختلاف مت پیدا کرو۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کی تعلیمات وہدایات قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔ اس میں انسانوں کے لیے زندگی گذارنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کی عملی شکل حضور اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی اور آپ کی سیرت وتعلیمات کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ کتاب وسنت کی بنیاد پر متحد ومتفق ہوں۔ اتحاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتاہے کہ تمام مسلمان اپنی انفرادی رائے، اپنے اعتقادات اور خیالات سے دستبر دار ہو جائیں، بلکہ اتحاد سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنے اعتقادات پر قائم رہتے ہوئے مجموعی اتحاد کا ثبوت پیش کرے۔ اپنے فقہی وفروعی اختلافات کو عوامی پلیٹ فارم سے بیان کرنے کو اپنے لیے حرام سمجھے۔ دوسروں کی رائے اور دلیل کے تئیں احترام، وسعت قلبی اور رواداری کامظاہرہ کرے۔ تعصب سے پرہیز کرے کیوں کہ تعصب تنازع ا ور تصادم کو جنم دیتا ہے۔ اتحاد کی اہمیت کے ساتھ ا للہ تعالیٰ نے آپسی اختلاف و انتشار اور فخر وغرور کو مشرکوں کا شیوہ قرار دیا ہے۔

ہندستان کے موجودہ ماحول میں مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد واتفاق کے ساتھ برداران وطن سے بہتر تعلقات قائم کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اپنی خود داری، روایت اور اسلامی شعائر کے ساتھ ان سے ملاقاتیں کرنا، انھیں اپنے ہاں مدعو کرنا، ان کے ساتھ روابط بڑھانا اور ان کے ساتھ ہر مصیبت کے وقت میں کھڑے رہنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ڈائیلاگ اور مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔ سیرت نبوی کے ایک اہم جز ”حلف الفضول“ سے سبق لیتے ہوئے انسانی بنیادوں پر ہر ایک کی بھلائی اور ہر ایک کے مسائل سے دل چسپی رکھنی چاہیے اور حتی الامکان ان مسائل کو حل کرنے میں اپنا تعاون دینا چاہیے۔ لیکن ایسی کوششوں کے درمیان خود کو سنبھالنا اور خود پر قابو رکھنا بھی ضروری ہے۔ کسی سے مرعوب ومتأثر ہونے والے اور ملی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر ذاتی مفاد کے تحت ایسی کوششیں کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اقتدار اور حکومت میں موجود کچھ لوگ کمزوروں کو استعمال کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم جانے انجانے میں ان کا آلہئ کار بن جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس تک نہیں کرپاتے ہیں کہ کہاں ہمارا استعمال کیا جا رہا ہے؟ اور ہمارے اقدام سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟ اس لیے ہر لمحہ مومنانہ فراست کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔

ہندستان کے موجودہ ماحول میں اس چیز کی بھی سخت ضرورت ہے کہ صوبائی ومرکزی حکومتوں سے اجتماعی روابط رکھے جائیں۔ ان روابط میں دانش مندی کا استعمال ضروری ہو گا۔ ہم ارباب حکومت سے خوف اور مرعوبیت سے پوری طرح خود کو بچاتے ہوئے برابری کے ساتھ بات کرنے کی جرأت پیدا کریں۔ ان لوگوں سے بھی بات چیت کے مواقع پیدا کریں جن کے بارے میں یہ واضح ہے کہ وہ نہ ملک کے دستور کی پروا کرتے ہیں، نہ اقلیتوں کی اور نہ ملک کی جمہوری شناخت کی۔ ان ملاقاتوں میں خوف زدہ ہونے کے بجائے انھیں اپنے عمل، اپنی سوچ، اپنے عزم اور اپنی انسان دوستی کے اٹوٹ جذبے سے مرعوب کیا جائے۔ ایسا اسی وقت ہو سکے گا جب ہم مرعوبیت کا لباد ہ اپنی پوری زندگی سے اتار پھینکیں گے۔

میں اس بات کو پورے زور کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہندستان کے حالات ہمیں قرآن کریم کے ذریعے بیان کیے گئے وقار انسانی اور کرامت انسانی کے سبق کو مضبوطی سے پکڑنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہمیں دستورِ ہند اور عظمت انسانی کے قرآنی سبق کو باہم مربوط کرکے مستقبل کی پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔ اس مضبوط اور مربوط پالیسی کے ذریعے ہمیں سماجی انتشار کو ختم کرنے اور پس ماندہ طبقات کے ساتھ کھڑے ہونے کی تیاری کرنی ہو گی۔ میرا احساس ہے کہ زمینی سطح سے جڑے بغیر اور ملک کی عوام کو اپنا ہم نوا بنائے بغیر آگے کا سفر طے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک ہم عوام کے مسائل او رالجھنوں کو اپنا مسئلہ نہ سمجھ لیں۔ اس کے لیے ہمیں ہر اچھے اور بھلے کام میں تعاون کرنے اور ہر برائی اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا مزاج بنانا ہو گا۔

مسلم معاشرے کے اندر حفظانِ صحت، تعلیمی بے داری اور اعلیٰ اخلاق وکردار سے مزین ہونے کا جذبہ پیدا کرنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تعلیم کے بغیر نہ کوئی انقلاب آیا ہے اور نہ آسکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے پرانے عزم کو سامنے رکھ کر کوشش کرنی ہو گی کہ 2050 تک کوئی مسلم بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ اعلیٰ تعلیمی میدانوں میں بالخصوص قانون، ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں کی طرف جانا ہو گا اور منظم منصوبے کے تحت اپنے نوجوانوں کو بالخصوص ان تین میدانوں میں کثرت کے ساتھ پہنچانا ہوگا۔ ہم لوگ اپنے انفرادی اور جماعتی وتنظیمی وسائل وذرائع کو استعمال کرکے اپنے معاشرے میں قرضِ حسنہ کی اسکیم کو بڑھاوا دیں اور اوسط درجے کی آمدنی کے وسائل کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں تو ملت کی معاشی بنیادوں کو زبردست تقویت پہنچائی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ہندستانی کی حیثیت سے حاصل ہونے والے ووٹنگ کے حق کو بھی پورے شعور کے ساتھ استعمال کرنے کا مزاج بنانا ہو گا۔ اس سلسلے میں کونسل Tectical Election کا کامیاب تجربہ کرچکا ہے۔ میرے خیال سے اگر اس تجربے کو ملک بھر میں دہرایا جائے تو مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنی تہذیب وروایات کی عظیم تاریخ کو ازسرنو مرتب کرکے اپنی قوم، اپنے ملک اور پوری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ملک کے موجودہ سیاق میں جو چند باتیں کہی گئی ہیں، وہ موجودہ حالات کے لیے بھی ہیں اور مستقبل کی منصوبہ سازی کے لیے بھی ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان تمام باتوں کو صحیح طور پر اسی وقت اختیار کیا جاسکے گا جب ہمارے اندر ایمانی فراست اور مومنانہ جرأت کار فرما ہوگی۔ اس فراست وجرأت کے بغیر کوئی سنگ میل طے نہیں کیاجاسکتا۔ اگر جرأت وفراست ہو تو راہیں خود بخود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور کام کرنے کا طریقہ اور نئے نئے منصوبے اپنے آپ ذہن کے دریچوں میں آنے لگتے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مومنانہ جرأت وفراست سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے اور نازک حالات میں عزم واستقلال کی تاریخ رقم کرنے کی روایت کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین