مسلمانانِ ہند - کرنے کے کچھ کام

ڈاکٹر محمد منظور عالم
(جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل)

وطنِ عزیز ہندستان کے حالات اس وقت عجیب رخ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ 2014 میں قائم ہونے والی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے فرقہ پرست طاقتوں اور سماج دشمن عناصر کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے ہیں کہ ملک کا ہر سنجیدہ امن پسند شہری سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ یہ حالات پورے ملک کے سنجیدہ حلقوں اور خاص کر اقلیتوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایک طرف ملک میں بسنے والی دوسری قومیں اور اقلیتیں ہیں، تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انھیں سب سے زیادہ تشویش ناک حالات کا سامنا ہے۔ عالمی ادارے بھی اس صورت حال پر اپنی فکرمندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان حالات میں کچھ کام ایسے ہیں، جنھیں کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ وہ کام کیے جانے لگیں تو حالات کو سنبھالا جاسکتا ہے اور صورت حال کی سنگینی کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمان رجوع الی اللہ کا اہتمام کریں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ کام بھی انجام نہیں پاسکتا۔ اس کی مرضی سے ہی قوموں کو عروج وزوال ہوتا ہے۔ اس رب العالمین نے ہماری ہدایت اور کامیابی کے لیے واضح اصول اور ضابطے نازل فرمائے ہیں۔ ان اصولوں سے انحراف کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں کے سارے زوال کا اصل سبب آسمانی اور قرآنی اصول وضوابط سے ہٹنا ہے۔ اگر ہمیں دوبارہ سربلندی اور ترقی چاہیے تو ان اصولوں کی طرف پلٹنا ہوگا۔ قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ جیسا کہ بیسویں صدی کی عظیم شخصیت علامہ شبلی نعمانی نے فرمایا تھا کہ ”دنیا کی ہر قوم کی ترقی اس بات میں ہے کہ وہ آگے بڑھتی جائے، لیکن مسلمانوں کی ترقی اس بات میں ہے کہ وہ پیچھے ہٹے اور ہٹتے ہٹتے چودہ سو سال پہلے پہنچ جائے۔“ اگر یہ کام نہ کیا گیا اور باقی تمام کام کر لیے گئے تو بہ حیثیت مسلمان عروج کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ لیکن اگر یہ کام سب سے پہلے کیا جائے اور اس کے بعد دوسرے کاموں کی طرف توجہ کی جائے تو یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوگی اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں آگے بڑھنا آسان ہوجائے گا۔

اس کے بعد دوسری لازمی چیز اتحاد امت ہے۔ احادیث رسول، آثار صحابہ اور امت کے تمام مصلحین، ائمہ، علمائ، مفکرین نے اتحاد کی دعوت دی ہے، اس کو اپنانے ،باہم شیر وشکر رہنے کی تلقین کی ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ اختلاف کا شکاریہی قوم ہے ،اکیسویں صدی میں سیاسی اور اقتصادی غلبہ حاصل کرنے کے لیے کئی متضاد مذہب ،فکر اور کلچر کے حاملین بھی ایک ہوچکے ہیں۔ جو لوگ کل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،وہ لوگ بھی باہم شیروشکر نظر آرہے ہیں حالاںکہ ان کے پاس اتحاد کے لیے کوئی نقطہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے پاس اختلافات کے باوجود اتحاد قائم کرنے کے لیے بہت سی مشترک چیزیں ہیں،اللہ تعالی کی وحدانیت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سمیت بہت سے ایسے امور ہیں جن پر مسلمانوں کے سبھی فرقے ،سبھی مسالک کا اتحاد ہے لیکن اس کے باوجود عملی سطح پر مسلمان اختلاف کے شکار ہیں، دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ اختلاف کی شکار اس قوم کے رہنما ہمیشہ اتحاد کی باتیں کرتے ہیں لیکن کبھی یہ مشن کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوپاتاہے ۔عالم اسلام کے ساتھ ہندستان کے حالات بھی مسلمانوں کے لیے انتہائی پے چیدہ اور مشکل ہوچکے ہیں،ہر آنے والادن ایک نئی مصیبت اور طلوع قیامت کی خبر دیتا ہے، ملک کی آب وہوا پکار کر کہہ رہی ہے کہ مسلمانو! متحدہوجاﺅ، ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ لیکن ہم سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی سطح پر شدید اختلاف کے شکار ہیں اور ایسی کوئی بھی پہل نہیں کررہے ہیں جو عملی سطح پر اس مہلک مرض کا ازالہ کرسکے۔ زیر نظر تحریر میں ہم ایسی ہی کچھ چیزیں پیش کرنے جارہے ہیں جن کی بنیاد پر ہم اس قیامت خیز منظر سے باہر نکل سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے مسلکی اختلاف کو بالائے طاق رکھنا ہوگا ۔ اس کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ ہم اپنے نظریات اور اجتہادات پر عمل کریں ،اس کی تشریح کریں لیکن دوسروں کی تنقید نہ کریں، اختلاف اپنے مسلک اور نظریات کی تشریح سے نہیں ہوتاہے بلکہ یہ تنازع اس وقت شروع ہوتاہے جب اپنے مسلک اور نظریات کی تائید میںہم دوسروں کی تنقیدوتنقیص شروع کردیتے ہیں۔علمی ،فقہی اختلاف شریعت اسلامیہ کا طرہ امتیاز ہے ،دورصحابہ میں بھی فقہی اور علمی اختلاف تھا لیکن ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف ذرہ برابربھی رنجش نہیں تھی ،ایسی ہی کیفیت دورتابعین اور بعد کے ائمہ اور فقہاءکے درمیان پائی جاتی رہی ہے ،ان کا اجتہاد ایک دوسرے کے خلاف ہوتاتھا لیکن اس کے باوجود وہ آپس میں باہم شیر وشکر تھے کسی کے دل میں کسی کے خلاف ذرہ برابر بغض وکینہ نہیں تھا لیکن آج یہ علمی اور فقہی اختلاف بغض وعناد کا سبب بن گیاہے ،ایک مسلک او رنظریہ کے ماننے والے دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،سچ یہ ہے کہ ان دنوں مذہب کی تبلیغ کے بجائے تمام ترتوجہ مسلک کی ترویج پر ہے ۔ قیام اتحاد کے لیے ایک ایسی ہی کوشش آل انڈیا ملی کونسل نے 2014 میں کی تھی اور میثاق اتحاد کے عنوان سے ایک قرارداد تشکیل دی گئی تھی۔ اس کے بعد ۸ اگست ۱۲۰۲ کو دلی میں تمام مسلم مکاتب فکر اور تمام اہم جماعتوں وتنظیموں کی جانب سے منعقد ہونے والی اتحاد ملت کانفرنس میں بھی ایک میثاق اتحاد پاس کیا گیا تھا۔ حسب ضرورت اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

قیام اتحاد کے لیے ایک پہل کی مزید ضرورت ہے۔ یہ پہل ملک کے معتبر ادارے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے پلیٹ فارم سے بھی کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ہم مسلمانوں کے بین المسالک اتحاد کی نہیں بلکہ ہندستان کے بین المذاہب یا بین الادیان اتحاد کی بات کر رہے ہیں۔ اس نازک دور میں بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی مسلمانوں کے درمیان بڑی اہمیت ہے۔ وہ مسلمانان ہند کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔ اس کی آواز پر تمام مسلمان مسلکی اختلاف سے بالاکر تر ہوکر لبیک کہتے ہیں۔ بین المذاہب اتحاد کا کام بورڈ کے اصل مقاصد کے ذیل میں نہیں آتا، لیکن وقت کی نزاکت اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے ایک ذیلی کمیٹی بناکر یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ ہندﺅوں کے چاروں شنکر اچاریہ، بڑے مذہبی مراکز اور مٹھوں کے رہنماو ¿ں، دلت، آدی واسی اور دیگر پس ماندہ طبقات کے ممتاز ومعروف قائدین وغیرہ سے ملاقاتیں کرے۔ یہ ملاقاتیں علی الاعلان اور میڈیا کو پوری اطلاع دے کر کی جائیں۔ ملاقاتوں سے پہلے یہ واضح کیا جائے کہ ہم آئین کی حفاظت، بھائی چارہ، ہمدردی، مساوات اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ملاقات کرنے جارہے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں موجودہ حکومت کی غلط اور ملک مخالف پالیسیوں سے آگاہ کیا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ اس طرح کی پالیسیاں ملک کے وقارکے خلاف ہےں۔ ملک کی جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔ اقتصادی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی سطح پر ملک شدید بحران کا شکار ہورہاہے جس کا خمیازہ مذہبی تفریق کے بغیر یہاں کی تمام عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سامنے اسلامی تعلیمات بھی پیش کی جائےں اور یہ بتایا جائے کہ قرآن او راسلام کا غیر مسلموں کے تئیں کیا نظریہ ہے اور مخلوط معاشرے کے تئیں اسلام میں کتنی وسعت اور فراخدلی کا مظاہر ہ کیا گیاہے۔

سیاسی و سماجی وقارکی بحالی اور مسلمانان ہند کی مشکلات ختم کرنے کے لیے مشترکہ طور پر ایک سیاسی فورم بھی تشکیل دینے کی سخت ضرورت ہے ۔اس حقیقت سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں کوملک میں موثر ہونے اور اپنی حیثیت ثابت کرنے کے لیے سیاست میں اثر ورسوخ حاصل کرنا ہوگا، سیاسی سطح پر مضبوط ہونا ہوگا لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان سیاسی سطح پر بہت کمزو ر ہیں،مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں،کوئی مشترکہ نظریہ اور مشن نہیں ہے ، مسلم ایم پی ،ایم ایل اے اور دیگر طرح کے نمائندوں کی بڑی تعداد ہے لیکن ان کے سامنے کوئی ایجنڈہ نہیں ہے ،عام نمائندوں کی طرح وہ بھی سیاسی نہج پر کام کرتے ہیں ۔اس لیے بہتر ہوگا ایک سیاسی فورم تشکیل دیاجائے ،اس میں تمام اقلیتوں او رمظلو م طبقات کو بھی شامل کیا جائے ،اس کے تحت سیاسی سطح پر سیاست میں سرگرم نوجوانوں اور قائدین کی ذہن سازی کی جائے ،اس فورم کا صدر اور کلیدی ذمہ دار ایسے شخص کو بنایا جائے جوخود کو انتخابی سیاست میں حصہ لینے اور کسی بھی سرکاری منصب کو قبول کرنے سے مکمل طورپر دوررہے ۔ اس کے تحت ایک نظریہ اور آئیڈیالوجی کی بنیاد پر انتخاب میں نمائندگی کرائی جائے ،باصلاحیت اور نیک امیدوارکو ٹکٹ دلوایا جائے ،کسی بھی ایک سیاسی پارٹی سے تعلقات وابستہ کرنے کے بجائے جہاں جس پارٹی سے امید ہو یا کوئی معاہدہ ہوجائے اس کی حکمت سے، شور شرابے کے بغیر حمایت کی جائے ،جہاں کوئی ایسی پارٹی باحیثیت ہو جس کے سربراہ مسلمان ہوں وہاں اس کی حمایت کی جائے ۔دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمام مسلمان مل کر ایک سیاسی پریشر گروپ بنائیں ۔

نوجوان ہر قوم کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ملت اسلامیہ ہندیہ کے نوجوانوں کو خصوصی طور پر تیاری کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے نوجوانوں سے بہت خوش ہوتا ہے، جو اس کی رضا کے لیے زندگی گزارتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ایسے نوجوانوں کے لیے عرشِ الٰہی کے سایے میں ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں ہمارے نوجوانوں کو خصوصی طور پر بیدار ہونے اور ملت کی سربلندی کے لیے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جوش وجذبہ اور عزم وحوصلہ ان کی میراث ہے۔ حالات سے مایوس ہونا کسی اور کے لیے تو جائز ہوسکتا ہے، نوجوانوں کے لیے کسی حال اور کسی صورت جائز نہیں ہے۔ لہٰذا نوجوانوں کو عزم وحوصلے سے کام لیتے ہوئے اپنے دین سے وابستہ ہونا ہوگا اور اپنی اسلامی تہذیب وثقافت سے آراستہ ہوکر ایمانی فراست کا ثبوت دیتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ انھیں اپنے اسلامی ورثے سے سبق حاصل کرتے ہوئے بدر کی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا اور احد کے حالات سے بھی مستفید ہونا ہوگا۔ زندگی کے ہر میدان اور خاص طور پر تعلیم کے میدان میں آگے آکر قیادت کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ انھیں اپنے ماضی کو مضبوطی سے پکڑ کر حال کا جائزہ لینا ہوگا اور مستقبل کی تعمیر کی فکر کرنی ہوگی۔

مسلمانوں کو یہ بات بہت اچھی طرح سامنے رکھنی چاہیے کہ مختلف اسباب کی بنا پر پیش آنے والے حالات دائمی نہیں ہوتے۔ یہ دنیا عارضی ہے اور یہاں پیش آنے والے حالات بھی عارضی اور وقتی ہوتے ہیں۔ اصل تیاری اس بات کی ہونی چاہیے کہ جب یہ حالات گزر جائیں تو ہم انسانیت کی قیادت سنبھالنے کی پوزیشن میں ہوں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم موجودہ حالات پر پورے عزم واستقلال کے ساتھ صبر کریں گے اور کل پر نظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کی تعمیر میں لگے رہیں گے۔ یقینا یہ مرحلہ بڑا سخت ہوسکتا ہے، لیکن اس مرحلے کے بعد جب صبح کی روشنی نمودار ہوگی تو گزرے ہوئے مراحل کی سختی کا احساس ختم ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں ہمیں رسول کریمﷺ کی مکی زندگی سے بڑی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ مکہ مکرمہ میں گزرے ہوئے ۳۱ سال رسول اللہ اور آپ کے اصحاب نے انتہائی صبر وضبط کے ساتھ گزارے۔ اس درمیان انھیں مزاحمت کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھٹی میں اچھی طرح تپایا، تاکہ تمام مسلمان اس سے کندن بن کر نکلیں۔ چناںچہ ایسا ہی ہوا۔ ۳۱ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد جب ہجرت کا حکم ہوا تو ہر شخص دعوت وعزیمت کا ایک مینار ثابت ہوا۔ اس وقت مزاحمت کی اجازت بھی دے دی گئی اور اسلامی غزوات کی روشن تاریخ لکھی گئی۔ لیکن ان مراحل تک پہنچنے کے لیے مکی زندگی میں صبر وضبط کے ساتھ گزارے ہوئے ۳۱ سال بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ دنیا کا ہر مہذب معاشرہ اور ہر قانون جان ومال کی حفاظت اور اس کے دفاع کا حق فراہم کرتا ہے۔ غیر سماجی عناصر یا زمین میں فساد برپا کرنے کے آرزو مند اگر کسی انسان یا انسانی معاشرے کے کسی حصے پر ظلم وستم کرنے کے در پر ہوں اور ان کے ذریعے عظمت انسانی اور وقار انسانیت کے پامال ہونے کا اندیشہ ہو تو ان کا سامنا کرنا اور ہر جائز طریقے سے ان کا دفاع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس موضوع پر ملک کے موجودہ سیاق میں شیخ الاسلام علامہ سید سلیمان ندویؒ کی یہ تحریر ہماری بھرپور رہنمائی کرتی ہے:

”ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت اور سمجھوتے پر میرے قلم نے بارہا مضامین لکھے ہیں اور اب بھی اس کی ضرورت کا قائل ہوں۔ مگر گڑگڑاکر اپنے دشمنوں سے اپنے زندہ رہنے کی التجا کرنے سے مردانہ وار مر جانا بہتر جانتا ہوں، کیوںکہ مردانہ وار مظلومانہ موت بھی زندگی سے کم نہیں۔“ (ماہنامہ معارف، جولائی 1941)