نیوزی لینڈ دہشت گردانہ حملہ : اسباب وجوہات

ڈاکٹر محمد منظور عالم

دہشت گردی سے پوری دنیا دوچارہے ۔یہ عالمی مسئلہ بن گیاہے جس کے خلاف مشترکہ جدوجہد ،مضبوط لائحہ اور ناقابل شکست جنگ لڑنی ضروری ہے ۔ دہشت گردوں کے عزائم کو مسمارکرنے اور ان کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے انسانیت اور امن وسلامتی کی تحریک سب سے اہم ہے ۔ نیوز ی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آر ڈن نے اس میدان میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے جسے اپنانے ،ان کے طریقہ کے مطابق کام کرنے اور ان کے پیغام امن کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ۔

گذشتہ جمعہ یعنی 15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ میں جو کچھ ہواہے وہ صرف نیوز ی لینڈ نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے سیاہ باب اور تاریخ کا شرمناک واقعہ تھا ۔ ایک سفید فام دہشت گرد نے عین نماز کے دوران فائرنگ کی ۔ مسجد النور اور ایک مسجد کو نشانہ بنایا۔50 بے گناہوں کو شہید کردیا ۔ بیس سے زائد زخمی ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا ۔ منظم انداز میں پلاننگ کی تھی ۔ مقام اور وقت کا انتخاب بتاتاہے کہ اس واقعہ کے پس پردہ ایک بہت بڑا ذہین ،شاطر ا ور دہشت گروپ ہے ہے۔ وسیع پیمانے پر ایک بہت بڑا نیٹ ورک ایسے کاموں میں ملوث ہے جس کا مقصد اور مشن انتہاء پسندی کا فروغ ، اسلام کے خلاف منفی پیروپیگنڈہ ،دہشت گردی کو بڑھاوا دینا ،مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور تاریخی واقعات کو مسخ کرکے پیش کرناہے تاکہ ان کے ذہن میں مسلمانوں سے دشمنی پیدا ہوجائے ۔اسلام سے دنیا متنفر ہوجائے ۔ مذہب اسلام اور اس کے ماننے والوں سے دنیا نفرت کرنے لگے ۔ اسی مقصد اور سوچ کے تحت ایک گروپ نے مسجد پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایاتھا۔کیوں کہ مسجد میں صرف مسلمان ہوتے ہیں ،نمازجمعہ کے دوران مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے ۔ دہشت گردوں کے ذہن میں یہ بات یقینی تھی کہ ہمارے حملہ کا شکار صرف مسلمان ہوں گے اور یہی ہوا بھی ۔حملہ آور نے اپنی دہشت گردانہ حرکت کو فس بک پر لائیو نشر کیاتھا ۔ حملہ سے قبل اس نے نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کے دفتر کو بھی اطلاع دی تھی اور 74صفحات پر مشتمل ایک منشور بھی جاری کیاتھا ۔

ان سب سے واضح ہوتاہے کہ امریکہ اور یورپ میں انتہاء پسندی کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف تعصب کی بنیاد یں بہت مضبوط ہوتی جارہی ہے اور مستقل ایک گروپ ایسے کاموں کی پشت پناہی کررہی ہے ۔ نیوزی لینڈ میں اس طرح کا یہ پہلا دہشت گردانہ حملہ تھا لیکن امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں اس طرح کے دسیوں واقعات پیش آچکے ہیں جہاں سفید فاموں نے مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایاہے لیکن میڈیا اور سربراہان مملکت نے ایسے واقعات کو ہمیشہ فائرنگ اور شوٹنگ سے تعبیر کرکے دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں ہونے دیا ۔ دہشت گرد کو ذہنی مریض بتادیا ،کسی حملہ آور کو پاگل کہ دیا اور معالمہ ختم کردیا ۔ نیوزی لینڈ کے 15/3 والے سانحہ کو بھی عالمی میڈیا اورمتعدد سربراہان مملکت نے فائرنگ اور شوٹنگ قرار دیکر معمولی ثابت کرنے اور ٹالنے کی کوشش کی ۔ اس واقعہ کو اہمیت دینے سے گریز کیا لیکن نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے ایسا نہیں ہونے دیا ۔۔

پی ایم جیسنڈ آرڈن نے اپنے پہلے ردعمل میں اس واقعہ کو نیوزی لینڈ پر دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ۔مارنے والے دہشت گردوں کو دشمن اور شہید ہونے والے مظلوم مسلمانوں کو اپنا شہری بتایا۔ مہلوکین کے اہل خانہ کے ساتھ کالے رنگ کا اسلامی لباس پہن کر انہو ں نے تعزیت کی ۔ دوپٹہ اوڑھ کر خواتین سے معانقہ کیا ۔ مییتوں کی تدفین کا پورا خرچ سنبھالنے کا اعلان کیا ۔ یہ پیشکش بھی کی کہ شہیدوں کے اہل خانہ اگرلاش کو اپنے ملک لے جانا چاہتے ہیں وہ لے جاسکتے ہیں مکمل اخراجات ہماری حکومت ادا کرے گی ۔انہوں نے فیس بک پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سولات کی بوچھا ر کردی ،تمام ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اسلام کو امن وآشتی کا پیکر اور صلح پسند مذہب بتایا ۔19 مارچ کو واقعہ کے بعد وہاں کی پارلیمنٹ کا پہلا آغاز انہو ں نے قرآن کریم کی تلاو ت سے کرایا ۔ نیوزی لینڈ کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے جب وہاں کی پارلیمنٹ میں قرآن کریم کی تلاوت ہوئی ۔انگریز میں ترجمہ ہوا اور تمام اراکین نے کھڑے ہوکر اس کی سماعت کی ۔ارکین پارلیمان سے خطاب کا آغاز انہوں نے السلام علیکم سے کیا۔جمعہ کو پورے ملک میں یوم یکجہتی منانے کے اعلان کیا ۔ نماز جمعہ کی اذان بھی سرکاری ٹیلی ویزن چینل اور سرکاری ریڈیو سے برا ہ راست نشر ہوگی ۔ اس کے علاو ہ وہاں اب اسلحہ رکھنے کا قانون بھی حکومت تبدیل کرنے جارہی ہے ۔

مسلمانوں کے خلاف دیگر دہشت گردانہ حملوں کی طرح برینٹن کی سفاکانہ دہشت گردی کو بھی عالمی میڈیا نے فائرنگ قرار دیکر معاملہ کو معمولی بناکر پیش کیا ۔ ہندوستان کی میڈیا کا رویہ بھی بدقسمتی سے ایسا ہی رہا ۔ متعدد سربراہان مملکت نے بھی اتنے بڑے واقعہ کو دہشت گردانہ حملہ بتانے سے گریز کیا ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انتہاء پسندی کی انتہاء کردی ۔ایسے نازک موقع پر افسوس کا اظہار کرنے اور واقعہ کی مذمت کرنے کے بجائے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو انہوں نے فون کرکے کہاکہ ہم آپ کیلئے کیا کرسکتے ہیں ۔ جینسڈا آرڈن نے انہیں برجستہ جواب دیا ’’آپ مسلمانوں سے نفرت ختم کرکے محبت کیجئے ،ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ برتیے‘‘ ۔

15/3 دہشت گردانہ حملہ کا مجرم اپنا ہیر وامریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کو مانتاہے ۔ ا س و اقعہ کے بعد بھی اسے اپنی حرکت پر افسوس اور ندامت نہیں ہے ۔عدالت میں پیشی کے دوران بھی اس نے اپنی درندگی پرشرمندگی کے بجائے فخر کا اظہار کیا ۔ یہ سب قابل غور اور سوچ وفکر کا موضوع ہے کہ مغرب میں اتنی انتہاء پسندی کہاں آگئی ہے ۔کب سے وہاں دہشت گردی پنپ رہی ہے ۔کون لوگ ایسے انتہاء پسندوں کی حمایت کررہے ہیں ۔مسلمانوں کے خلاف اس بڑھتی ہوئی نفرت اور انتہاء پسندی کی وجوہات کیا ہیں ؟۔ کیا یہ اسلام فوبیا کی وجہ سے ہے ؟ سفید فاموں کو اپنے علاوہ کا وجود منظور نہیں ہے ؟ ۔ سفید فام قوم سیاہ فام اقوام کو قیادت اور برتری کے لائق نہیں سمجھتی ہے ؟ مغرب اسلام کا وجود پسند نہیں کرتاہے ؟ وہاں انسانیت کا مطلب صرف گوروں کی حکومت اور بالادستی ہے ؟ ایسے متعدد سولات ہیں جن پر بحث،گفتگو ضروی ہے اور مغرب کو یہ آئینہ بھی دکھانے کا وقت آگیاہے کہ انسانیت اور سیکولرزم کے باتیں کرنے والوں کے یہاں دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی جڑیں بہت مضبوط ہوچکی ہیں ۔یہ اچھی بات ہے کہ اس کے خاتمہ کیلئے اسی نسل اور خطہ کی ایک خاتون وزیر اعظم جینسڈا آرڈن نے ایک عظیم مثال قائم کی ہے ۔ قابل تقلید نظیر پیش کی ہے جو دنیاکے تمام سربراہان مملکت اور رہنماء کیلئے مشعل راہ ہے ۔ انہیں اسے اپنانے کی ضرورت ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس طریقہ کو اپنائے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی ہے ۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنیڈ آرڈن کا اقدام لائق ستائش اور قابل ذکر ہے ۔ہندوستا ن سمیت دنیا کے دیگر رہنماؤں کو ان سے سیکھنا چاہیئے ۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )




Back   Home