پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے درمیان سیاسی بیداری ضروری

ڈاکٹر محمد منظور عالم

جمہوریت میں انتخابات سب سے اہم ہوتے ہیں، انتخابات جمہوریت اور ڈیموکریسی کی رو ح ہوتی ہے ،اسی جمہوری نظام کی بنیاد پر عوام کو اپنا حکمراں اور لیڈر منتخب کرنے کا موقع ملتاہے ، عوام کے ہاتھوں میں مکمل اختیار ہوتاہے کہ وہ کسے ، کن بنیادوں پر اور کیوں منتخب کرے ، کسے اپنی ریاست کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق سونپ دے ، کس کو اپنا حاکم تسلیم کرلے ، دیگر نظاموں میں طاقت ، وقوت ، جنگ وجدال اور قتل کے ذریعہ کوئی حاکم بنتاہے ، سلطنت پر قبضہ کرتاہے لیکن جمہوریت میں خود عوام اپنا حاکم منتخب کرتی ہے اس لئے عوام کے اوپر جمہوری نظام میں سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر ووٹ کرے ، ووٹ ڈالنے سے پہلے اچھی طرح غور وفکر کرلے کہ اس کا ووٹ کسے جارہاہے ، کن خوبیوں کی بنیاد پر جارہاہے اور جسے ووٹ دیا جارہاہے وہ ملک اور سماج کیلئے کیا خدمات انجام دے گا ، اس کی سوچ کیا ہے ، ماضی میں اس نے ملک وقوم کیلئے کس طرح کا کارنامہ انجام دیاہے ، عوام کے درمیان اس کی شبیہ اور شناخت کیسی ہے ، عوام کیلئے وہ کتنا مفیدثابت ہوگا ۔

بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جہاں متعدد طرح کے انتخابات ہوتے ہیں جن میں عام انتخابات اور اسمبلی انتخابات سب سے اہم ہیں ، ہر پانچ سال پر ہم عوام کو اپنا وزیر اعظم ، وزیر اعلی ، ایم پی ، ایم ایل اے اور دیگر نمائندوں کو منتخب کرنے کا موقع ملتاہے ، ایک غلطی کی بنیاد پر پانچ سالوں تک پچھتانا پڑتاہے اور ایک صحیح فیصلہ پانچ سالوں تک ہماری ریاست کے حق میں مفید ثابت ہوتاہے اس لئے ووٹ ڈالنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے سے پہلے بہت کچھ سوچ لے ، کچھ اہم نکات پر غور کرلے جس کا ہم یہاں تذکرہ کرنے جارہے ہیں ۔

10 فروری سے 7 مارچ تک ہمارے یہاں پانچ صوبوں میں انتخابات ہورہے ہیں ، اتر پردیش، پنجاب ، اترا کھنڈ ، گوا ، منی پور ۔ یہ پانچوں صوبے انتہائی اہم ہیں اور ان میں اتر پردیش سب سے اہم ہے جو آبادی کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ اور دنیا کا چھٹا ملک ماناجاتاہے ۔ مرکزی حکومت کا راستہ بھی اتر پردیش کے ذریعہ ہی بآسانی طے ہوتاہے اس لئے پانچ صوبوں اور بالخصوص اتر پردیش کے عوام کو ووٹ ڈالنے سے پہلے ان امور پر غور کرنا ہوگا کہ وہ کسی بھی پارٹی ، کسی بھی نمائندہ کو کیوں ووٹ دے رہے ہیں ، اس کی جیت سے ریاست کا نقصان ہوگا یا ترقی ہوگی ، ملک میں امن وسلامتی کو فروغ ملے گا یا فرقہ پرستی کا عروج ہوگا ۔

ان پانچ صوبوں میں کمزوروں ، دلتوں ، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی بڑی تعداد ہے بلکہ انہیں کے ووٹوں کی وجہ سے کسی بھی پارٹی کی سرکار بنتی ہے یا کسی کو شکست کا سامنا کرنا پڑتاہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد صاحب اقتدار کی جانب سے سب سے زیادہ انہیں طبقات پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں ، انہیں کو حاشیہ پر رکھا جاتاہے ، ہر طرح کے حقوق سے محروم کردیا جاتاہے اس لئے ان طبقات کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں ، اتحاد قائم کریں ، سیاسی شعور سے کام لیں ، ملک کو بچانے کی فکر کریں ، ملک کے سیکولر ڈھانچہ کو فروغ دینے کی کوشش کریں ، ان طاقتوں کی سازشوں کو سمجھیں جو جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، سیکولر زم کو ہند و راشٹر میں بدلنا چاہتے ہیں ، آئین ہند کی جگہ منو اسمرتی کو نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ملک کے دلتوں کو دوبارہ غلام بنانا چاہتے ہیں ،آزادی ، مساوت ، انصاف اور بھائی چارہ تک ہر ایک شہری کی رسائی کو روکنا چاہتے ہیں ۔

ووٹ دیتے وقت یہ خیال رکھیں کہ جسے ووٹ دے رہے ہیں وہ کسی سیکولر پارٹی کا نمائندہ ہو ، جیتنے کی صلاحیت ہو ، عوام کا رجحان اس کی جانب ہو ، سیکولرز م کے اصولوں پر عمل پیر ا ہو ، سماج کو جوڑ کر رکھنے کی صلاحیت کا حامل ہو ، آئین ہند کے تحفظ کیلئے فکر مند ہو ، سماج کے سبھی طبقات کیلئے یکساں سوچ رکھتاہو، فرقہ پرستی سے دور ہو ، عوام کیلئے ہمدرد ہو ، مشکل اوقات میں کام آتا ہو ، سماج کو تقسیم نہ کرتا ہو ایسے نمائندوں کوووٹ دیں ،انہیں کامیاب بناکر اسمبلی بھیجیں، ملک کے سیکولرزم اور آئین کی حفاظت کرنے والی پارٹیوں کو اقتدار تک پہونچانے کی کوشش کریں ۔ اتر پردیش ، پنجاب ، اتر اکھنڈ، گوا اور منی پور تمام صوبوں میں سیکولر پارٹیوں کے نمائندوں کوووٹ دیں ، کسی ایک پارٹی کو ووٹ کرنے کے بجائے اس کے ایماندار ، مخلص ، سیکولر مزاج رکھنے والے نمائندے کو و وٹ دیں ،خواہ وہ کسی بھی سیکولر اور آئین ہند پر یقین رکھنے والی پارٹی کا نمائند ہو ، کسی ایک پارٹی کے بجائے مختلف پارٹیوں کے ایماندار اور سیکولر اقدار کے حامل نمائندوں کی کامیابی کو یقین بنائیں اسی کو سیاست کی اصطلاح میں ٹیکٹیکل ووٹنگ کہاجاتاہے ۔

ٹیکٹیکل ووٹنگ کیلئے عوام کے درمیان سیاسی شعور کی بیداری ، آپسی اتحاد اور ہم آہنگی ضروری ہے اس کے علاوہ ووٹنگ کی اہمیت ، جمہوریت کی قدر ، سیکولرزم کی حفاظت اور آئین کو بچانے کی فکر مندی ضروری ہے اور یہ فکر مندی ملک کے دلتوں ، پچھڑوں ، کمزوروں ، اقلیتوں ، آدی واسیوں اور پسماندہ طبقات کے درمیان ضروری ہے ورنہ ان کے حالات پہلے سے زیادہ بدتر ہوں گے ، مظالم کا سلسلہ مزید دراز ہوجائے گا اور مزید پانچ سالوں تک مشکلات ، مظالم اور مصائب کا سامنا کرناپڑے گا ۔

بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ او بی سی اور ایس سی ایس ٹی سے تعلق رکھنے والے عوام ہیں ، ان عوام کا کسی کی جیت اور ہار میں نمایاں کر دار ہوتا ہے لیکن تعداد کی کثرت کے ساتھ سیاسی شعور ضرورہے ، اپنے حق وحقوق کو جاننا ضروری ہے ، یہ ادراک ہونا چاہیئے کہ وہ کون لوگ جو ان کی ترقی چاہتے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو ان کا استحصال کررہے ہیں ،انہیں صرف ان کے ووٹوں سے مطلب ہوتاہے ان کی ترقی اور کامیابی نہیں چاہتے ہیں ، ایسی پارٹیوں کی شناخت ضروری ہے ۔ جو پارٹی پسماندہ طبقات کے حقوق کیلئے کام کرتی رہے ، ماضی میں جنہوں نے کام کیاہے ان کو ذہن میں رکھنا چاہیے ، ان کے امیدواروں پر بھروسہ کیا جاسکتاہے ، دوسری طرف وہ پارٹیاں جنہوں نے ہمیشہ دلتوں کا استحصال کیاہے ، نقصان پہونچایاہے ، انہیں ہر طرح کی مشکلوں سے دوچار کیاہے ایسی پارٹیوں سے دوری اختیار کرنی چاہیئے ، ایسی پارٹیوں کی سازشوں کا دوبارہ شکار نہیں ہونا چاہیئے، اپنے ووٹ کے حق کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اپنے خیر خواہوں کو باگ دوڑ سونپنا چاہیئے ۔ ووٹ ایک فریضہ ہے ، ایک بنیادی حق ہے ، ایک گواہی ہے اس لئے جسے بھی ووٹ دیں بہت سوچ سمجھ کر اور غو ر وفکر کرکے ووٹ دیں ، اگر ذرا سی چوک ہوئی ، غلط فیصلہ ہوگیا ، کسی لالچ ، وقتی مفاد اور بہکاوے میں آکر آپ نے ووٹ کیا تو پھر اگلے پانچ سالوں تک پچھنا ناپڑے گا ، غلط لوگوں کو اقتدار سونپنے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ، کف افسوس ملنے کے سوا آپ کے پاس کچھ نہیں بچے گا اس لئے جسے بھی ووٹ دیں بہت سوچ سمجھ کر اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ، ملک کے مفاد اور دستور کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے حق رائے دہی کا استعمال کریں کیوں کہ جمہوریت کی روح انتخاب ہے اور انتخابات میں ذہاںت، عقل و فراست کا استعمال ضروری ہے۔ حالات کو سمجھنا، مستقبل کو دیکھنا اور تمام امور کو پیش نظر رکھنا ووٹ ڈالنے سے قبل بنیادی امر ہے۔ ہر انتخاب اور الیکشن میں یہی طریقہ کا سامنے ہوچاہیے اور تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہیے

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹر ی ہیں)