رائے دہند گان کی فہم وفراست کا امتحان

ڈاکٹر محمد منظور عالم

جنگ آزادی کے عظیم الشان مجاہدین اور اکابرین نے انگریزوں سے آزادی مل جانے کے بعد 1951 میں ہمارے ملک ہندوستان کو ایک جامع دستور سے سرفراز کیا جس میں انصاف ،مساوات ،ازادی ،بھائی چارگی اور ہم آہنگی کو بنیاد بنایاگیا،ملک کے نظام کو جمہوری بنایاگیا ،حکومت کے انتخاب کیلئے الیکشن کا نظام شروع کیا گیا ،سیکولر ،انصاف پسند ،ایماندار اور عوامی فلاح وبہبود پر یقین رکھنے والے حکمرانوں کے انتخاب کیلئے ایک مخصوص مدت متعین کی گئی ،الیکشن کیلئے پانچ سال کا دورانیہ طے کیاگیا ،شروع میں 22 سال کے ہر شہری کو ووٹ دینے کا اختیار دیاگیا، بعد میں کم کرکے 18 سال کی عمر کو پہونچنے کے بعد ہر شہری کو حق رائے دہی کے استعمال کا حق دیاگیا ۔آنے والے 2019 میں آئین کی انہیں دفعات کے مطابق ایک مرتبہ پھر ہمیں ووٹ ڈالنے کا حق ملے گا ،اپنی پسندیدہ حکومت کے انتخاب کا اختیار ہوگا ،ملکی سالمیت اور ترقی کویقینی بنانے والی سرکار کو چننے کا موقع ملے گا ،اس لئے یہ ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم اس اختیار کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ایک سیکولر ،انصاف پسند اور آئین ہند کی علمبردار حکومت کی تشکیل دیں اور یہ طے کریں کہ ہماری اگلی حکومت کیسی ہو،کون سی اس میں خصوصیات ہواورکن ایشوز پر وہ کام کرے گی ۔

یہ بات قابل اطمیان اور باعث مسرت ہے کہ آئین کے مطابق ہر پانچ سال پر ہمارے یہاں الیکشن ہوتاہوا آرہاہے سوائے ایک مختصر عرصے کے جسے ایمرجنسی کہاجاتاہے ،اسی دستور کے مطابق 2019 کا الیکشن بھی ہونے جارہاہے تاہم یہ الیکشن ماضی کی خصوصیات سے مختلف ہوگا ،ترقی ،غربت ،جہالت ،ملکی مسائل جیسے ایشوز اس انتخاب کے ایجنڈے میں شامل نہیں کئے جائیں گے بلکہ نفرت اور انتہائی پسند ی کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا ،جذبات بھڑ کاکر ووٹ مانگے جائیں گے ،مذہبی بنیادوں پر انتخابی تقریریں ہوگی ،ایسے ایشوز اچھالے جائیں گے جس سے مذہبی ہم آہنگی کو خطرہ پہونچے ،امن وسلامتی سلامت نہ رہ پائے ،ہندوستان کی گنگاتہذیب خطرے میں پڑ جائے ،ہندومسلم آپس میں لڑ پڑیں،رنگ ونسل اور عصبیت کو پروان چڑھنے کا موقع ملے ،بھائی چارہ مکمل طور پر ٹوٹ جائے ،دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائی جائے ، اس موقع پر حکومت کی مشنری بھی انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے حکومت کو سپورٹ کرسکتی ہے ،معصوم اور بے گناہوں کو جیل میں بند کرسکتی ہے ،بے بنیاد الزامات لگاکر مقدمات دائرکئے جاسکتے ہیں،ایک گرو ہ وہ بھی اس میں شامل ہے جو ہمیشہ حکومت وقت کے ساتھ ہوتاہے ،خواہ وہ اعلی ذات کے لوگ ہوں یا ماضی میں اعلی گروہ سے تعلق رہاہوایسے لوگ ہی محفوظ رہ پاتے ہیں بقیہ کمزور اور نچلی ذات کے لوگوں پر قانون کا شکنجہ کسا جانا یا انہیں بے بنیاد الزامات لگا کر پھنسانا عام بات بن گئی ہے ۔

مذکور ہ امور کا شمار جرائم میں ہوتاہے ،ماضی میںجو لوگ اس ملوث پائے جاتے تھے وہ شرم وعا ر محسوس کرتے تھے ،انتظامیہ ،پولس ،میڈیا اور دیگر مشنری انہیںجرم کی پاداش میں سزا دیتی تھی یا دلوانے کی کوشش کرتی تھی ،سماج میں ایسے جرائم پیشہ افراد کی مذمت کی جاتی تھی لیکن اب ایسا ماحول بنادیاگیاہے کہ ایسے مجرموں کو سماج میں برا نہیں سمجھاتاہے ،زیادہ تر ایسے افراد حکومت اور اقتدار میں براجمان ہیں۔نتیجہ اب یہ نکل رہاہے کہ ریپ ،عصمت دری ،خواتین کے ساتھ تشدد،چھیڑ چھاڑ ،کرپشن ،گھوٹالہ ،اشتعال انگِیزی ،انتہاءپسندی ،قتل وغار ت گری جیسے سنگین جرائم میں حکمراں طبقہ بڑے پیمانے پر شریک ہے اور حکومت ایسے لوگوں کو سزا دینے کے بجائے ان کی حمایت کرتی ہے ،کھلے عام سپورٹ کرتی ہے جرم کو جرم گرداننے اور سخت کاروائی کرنے کے بجائے تاویل کرکے پولس ،عدلیہ اور دیگر مشنری سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ حکومت ظالم کی حوصلہ افزائی کرکے اسے مزید جرائم کرنے پر آمادہ کرتی ہے ،ملک میں ماب لنچگ کے بڑھتے واقعات ، عصمت دری کے کیس میں ہورہے مسلسل اضافہ کی وجہ بھی یہ یہی ہے کہ مجرموں کے خلاف حکومت کوئی سخت کاروائی نہیں کرر ہی ہے،انہیں ان کے جرم کی سزا دینے کے بجائے حکومت میں شریک افراد مبارکبا د پیش کرتے ہیں ،ریپ اور قتل کے مجرموں کو مالاپہنا کر ان کا استقبال کیا جاتاہے ،مزیدبرآں یہ کہ لنچگ کی ویڈیو بناکر وائرل کی جاتی ہے تاکہ اقلیتوں ،دلتوں اور پسماندہ طبقات میں خوف و ہر اس پیدا ہو ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اب قدرتی آفات اور مصائب میں بھی سیاست کرنے لگی ہے ،ان ریاستوں اور علاقوں کے مسائل سے چشم پوشی کرررہی ہے جہاں اس پارٹی کی حکومت نہیں ہے ،مثال کے طور پر کیرالاکو دیکھ لیجئے ۔ان دنوں وہ ریاست شدید تباہی کی زدمیں ہے،تباہ کن بارش اور سیلاب نے ریاست کو ویران بنادیا ہے ،تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا سیلاب وہاں آیاہے لیکن حکومت وہاں کے مسائل حل کرنے اور سیلاب متاثرین کو مدد پہونچانے میں دلچسی نہیں لے رہی ہے محض اس وجہ سے کہ وہاں اس پارٹی کی حکومت نہیں ہے اور نہ ہی وہاں کے لوگ اس نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس موقع پر حکمراں طبقہ کے کچھ لیڈروں نے ایسے شرمناک بیانات دیئے ہیں جس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتاہے ۔

آزادی کے بعد حکومت ہند نے اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے ،مناسب اقدام کرنے ،عوام کو اعتماد میں لینے اور ملک کیلئے بہتر کارکردگی کرنے کی مسلسل کوشش کرتی رہی ہے ،گذشتہ ستر سالوں میں ملک کی معیشت میں بہتر ی بھی آئی ہے ،کئی شعبوں میں ملک نے ترقی بھی کی ہے تاہم موجودہ حکومت کی کردگی اور پالیسی بالکل مختلف ہے ،یہ حکومت عوام کے درمیان نفرت ،انتہاءپسندی ،اشتعال انگیزی اور جملہ بازی پر بھروسہ رکھتی ہے اور میڈیا کا سہار الیکر اپنا جھوٹا پیر وپیگنڈہ گھر گھر پہونچانے کی کوشش کرتی ہے ۔

میڈیا کو جمہوریت میں چوتھے ستون کا مقام حاصل ہے ،میڈیا کے بارے میں یہ سمجھاجاتاہے کہ وہ حقائق اور سچ کی بنیاد پر خبریں نشرکر تی ہے ،صحیح صورت حال عوام تک پہونچاتی ہے ،حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتی ہے ،عوام کے مسائل کو حکومت تک پہونچاتی ہے لیکن گذشتہ چار سالوں میں میڈیا کا تصور ہی تبدیل ہوگیاہے ،اب ہندوستان کی میڈیا خبر رساں ایجنسی کے طور پر کام کرنے بجائے پبلک ریلیشن کا کام کررہی ہے ،صحیح تصویر پیش کرنے کے بجائے حکومت کے کام کاج کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھاکر پیش کررہی ہے ،سرکار کے بجائے میڈیا ہی دفاع کرتی ہے کہ اس وجہ سے حکومت یہ کام نہیں کرپائی ،جو بنیادی مسائل ہیں،جن پریشانیوں سے عوام جوجھ رہی ہے اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتاہے ،حکومت کی پالیسی سے تنگ آکر سڑکوں پر اجتجاج کرنے والوں کی خبریں کہیں نظر نہیں آتی ہے ۔ میڈیا کی اس بدلی ہوئی تصویر نے میڈیا کے تئیں عوام کو بد ظن کردیاہے ،صحافت سے اعتماد اٹھ گیاہے اور اب ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے توسط سے جوکچھ پہونچ رہاہے وہ قابل اعتبار نہیں رہ گیاہے ۔

آنے والے الیکشن کے پیش نظر کشمکش کی صورت حال میں مزید شدت پیدا ہونے کے امکانات ہیںجہاں نفرت کو فروغ دیا جائے گا ،مختلف اکائیوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی ،انصاف کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی اور یہ کوشش کی جائے گی کہ جولوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیکر ملک کا امن وامان تباہ وبرباد کررہے ہیں ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہو ،کسی طرح کی کوئی کاروائی نہ ہو تاکہ مکمل آزادی کے ساتھ بے خوف ہوکر وہ کچھ لوگوں کے درمیان خوف ہراس پیدا کریں اوراس کا ذریعہ بن سکیں۔ایسی صورت حال میں ان لوگوں کے سامنے سنگین سوالات ہیں جو عقل وخرد رکھتے ہیں ،صاحب بصیرت ہیں،آزادی کے ستر سالوں پر ان کی نظر ہے کہ کیا یہاں کے رائے دہندگان اپنی آزادی کو ختم کرنے اور ایک خاص نظریہ کا تسلط قائم ہونے دیں؟،اعلی اور ادنی میں تفریق پیدا کئے جانے کو قبول کرلیں؟،امیروں کے ہاتھ میں دولت کو محددو ر رہنے دیا جائے ؟غریبوں کو مزید بے بس کردیاجائے؟ اقلیتوں ،دلتوں اور پسماندہ طبقات کے درمیان خوف قائم رہنے دیاجائے؟، 1951 میں جو دستور مرتب ہواتھا اس کو بدلنے کیلئے آزاد چھوڑدیا جائے ؟یا پھر اس کے خلاف آواز اٹھائیں ،ظلم اور عداوت کا مقابلہ کریں ،جمہوری طریقے کے مطابق ایسے طاقتوں کا مقابلہ کیا جائے ۔

الیکشن جمہوری نظام میں سب سے بڑی طاقت ہے ،یہی موقع فراہم کرتاہے انصاف پر ور حکمرانوں کے انتخاب کا اور ظالم طاقتوں کو اقتدار سے باہرکا راستہ دکھانے کا ،عوام کی فلاح وبہبود میں دلچسپی رکھنے والے لیڈروں کو چننے کا اس لئے 2019 کے الیکشن میں ملک کی عوام کو ذہانت وفراست کا استعمال کرنا ہوگا ،بصارت کے سے ساتھ بصیرت سے کام لینا ہوگا ،ووٹ ڈالنے سے پہلے گذشتہ پانچ سالوں کے حالات پر نظر ڈالنا ہوگا کہ ان پانچ سالوں میں ملک کو کن حالات سے گزرنا پڑاہے ،عوام کو کتنی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑاہے ،کس طرح کے مصائب سے گزرناپڑاہے اگر ایسی حکومت آگئی تو آنے والا دور مزید کتنا تباہ کن ہوگا ۔

تاریخ کی نظروں نے وہ دور بھی دیکھاہے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزاءپائی

(مضمون نگارمعروف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home