ہائی کورٹس کے کچھ اہم فیصلے

ڈاکٹر محمد منظور عالم
جمہوریت میں عدلیہ کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ عدلیہ ہی انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارگی کو برقرار رکھنے میں نمایاں کردار نبھاتی ہے۔ عدلیہ عوام کی امید ہوتی ہے۔ جب تک عدلیہ سے انصاف ملتا رہتاہے عوام کا بھروسہ اور اعتماد سسٹم پر برقرار رہتا ہے۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں بھی عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے اور ہمیشہ عوام کی نگاہیں عدلیہ پر مرکوز ہوتی ہیں اور ابھی بھی عدالتوں سے انصاف کی امیدیں برقرار ہے۔ اقلیتوں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور کمزوروں کی امیدو ں کا سب سے بڑا مرکز یہاں کی عدالتیں ہی ہیں۔ کئی مرتبہ یہاں کی عدالتوں سے اقلیتوں کو مایوسی کا بھی سامنا کرناپڑتاہے لیکن انہیں عدالتوں سے انہیں انصاف بھی ملتاہے۔ ان کے حقوق کی پاسبانی ہوتی ہے۔ اگر عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہونچایاجاتاہے۔ اس کا کام کاج مایوس کن ہوتاہے تو پھر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن۔ڈاکٹر راجیو دھون جیسے لوگ میدان میں آکر اس کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔ عدالتی وقار کو برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں۔حالیہ دنوں میں بمبئی ہائی کورٹ۔ دہلی ہائی کورٹ،مدراس ہائی کورٹ اور الہ آباد ہائی کورٹ کا جو فیصلہ آیاہے وہ بہت اہم اور قابل ذکر ہے۔

بمبئی ہائی کورٹ نے 21اگست 2020 کو تبلیغی جماعت کے تعلق سے تاریخی فیصلہ سنایا۔ حکومت اور میڈیا دونوں کے رویہ کی سخت تنقید کی اورجس طرح کرونا وائرس کی آڑ میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم چلائی گئی اس پر سخت برہمی کااظہار کیا۔ ملک کی تاریخی میں کسی بھی عدالت کا یہ فیصلہ بہت اہم ،تاریخی اور جامع ہے۔

بمبئی ہائی کورٹ نے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ “دہلی کے مرکز میں آئے غیر ملکی لوگوں کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑا پروپیگنڈا چلایا گیا۔ ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی جس میں ہندوستان میں پھیلے کووڈ-19 انفیکشن کا ذمہ دار ان بیرون ملکی لوگوں کو ہی بنانے کی کوشش کی گئی۔ تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ہندوستان میں انفیکشن کے تازہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عرضی دہندگان کے خلاف ایسے ایکشن نہیں لیے جانے چاہیے تھے۔ غیر ملکیوں کے خلاف جو کارروائی کی گئی، اس پر ندامت کرنے اور ازالہ کے لیے مثبت قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔”بنچ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں تک کہا کہ “ایک سیاسی حکومت اس وقت بلی کا بکرا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے جب وبا یا آفت آتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ممکن ہے ان غیر ملکیوں کو بلی کا بکرا بنانے کے لیے منتخب کیا گیا ہو۔” اس دوران بنچ نے یہ بھی کہا کہ “کسی بھی سطح پر یہ انداز ممکن نہیں ہے کہ وہ (غیر ملکی) اسلام مذہب کی تشہیر کر رہے تھے یا کسی کا مذہب تبدیل کرانے کا ارادہ تھا۔

اورنگ آباد ہائی کورٹ میں تبلیغی جماعت کے 29 غیر ملکی اراکین کا مقدمہ تھا۔ ان سبھی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 188/269/270/290 مہاراشٹرا پولس ایکٹ 195 135 سمیت کئی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان سبھی کے خلاف یہ بھی الزام لگایاگیا کہ انہوں نے ٹورسٹ ویزا کا غلط استعمال کیا۔ مذہبی پروگرام میں حصہ لیا اور مذہب کی تبلیغ کی۔ غیر قانونی سرگرمیاں انجام دی۔ بمبی ہائی کورٹ نے اس کی بھی تردید کی۔ ہائی کورٹ نے کہاکہ ٹورسٹ ویزا رکھنے والوں کیلئے مذہبی تقریب میں شرکت ممنوع نہیں ہے۔تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شریک ہوکر انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔جہاں تک الزام ہے مذہب کی تبلیغ کیا تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان میں اردو یا ہندی زبان بولی جاتی ہے جبکہ ان غیر ملکیوں کی زبان الگ ہے۔ جس زبان کو وہ جانتے ہیں اس میں یہاں تبلیغ کرنا ممکن نہیں ہے۔جسٹس نالونڈے نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:تبلیغی جماعت مسلمانوں سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی کا حصہ ہے۔ اس جماعت کا کام مذہبی اصلاح اور ریفورم ہے۔ ہر مذہب میں اصلاح اور ریفوم کاکام ہوتاہے۔دنیا کی ترقی اور سماج میں مسلسل پیدا ہونے والی تبدیل کی وجہ سے مذہبی اصلاح وقت کی اہم ضررت ہے۔کسی بھی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ یہ غیر ملکی مذہب کی تبلغی کررہے تھے اور دوسروں کا مذہب تبدیل کرارہے تھے۔ اس کا کوئی ریکاڈ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت ہے۔ ریکا ڈ یہ بھی بتارہاہے کہ یہ غیر ملکی ہندوستانی زبان جیسے اردو یا ہندی بولنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔ بلکہ ان کی زبان عربی۔ فرنچ یا کچھ اور ہے جس بنیاد پر نہیں بالکل نہیں کہاجاسکتاہے کہ ان غیر ملکوں کا مقصد مذہبی اصلاح اور اس کی تبلیغ ہے۔ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ بالکل نہیں کہاجاسکتاہے کہ ان کی منشائ مذہب کا فروغ اور دورسروں کا مذہب تبدیل کرانا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ میں ابھی سدرشن نیوز چینل کا معاملہ گیاتھا۔ سدر شن نیوز چینل نے گذشتہ دنوں نے اپنے ایک پروگرام کا پرومو جاری کیاتھا جس میں یہ بتایاجارہاتھاکہ مسلمان یوپی ایس سی کے ذریعہ اب جہاد پھیلائیں گے۔ آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن کر ملک سے غداری کریں گے اور اس کا مرکز جامعہ ملیہ اسلامیہ ہے۔ سدرشن نیوز کا یہ پرومو بہت زیادہ اشتعال انگیز ، نفرت آمیز اور تشدد بھڑکانے والا تھا۔ جامعہ کے اسٹوڈینٹس نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی جس پر فوری سنوائی ہوئی اور 28اگست کو نشر ہونے والے پروگرا م پر اگلی سماعت تک پابندی لگادی۔ ہائی کورٹ نے اپنے تبصرہ میں کہاکہ یہ نفرت انگیز اور اشتعال انگیز ہے۔ ا یسے کسی بھی مواد کی اشاعت نہیں دی جاسکتی ہے۔

چند دنوں قبل الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی ڈاکٹر کفیل خان کے معاملہ میں تاریخی فیصلہ سنایا۔ڈاکٹر کفیل خان پر یوپی کی یوگی حکومت نے نیشنل سیکوریٹی ایکٹ لگارکھا تھا۔جرم کا کوئی پتہ نہیں تھا لیکن این ایس اے لگاکر جیل میں بند کردیاتھا۔تین ماہ کی مدت پوری ہوجانے کے بعد سرکار نے اس میں اضافہ کردیا۔ڈاکٹر کفیل نے 2017 میں گورکھپور کے بی آر میڈیکل کالج میں دسیوں بچوں کی جان بچائی تھی۔ ہسپتال کا گیس ختم ہوگیاتھا35 سے زیادہ بچوں کی آکسیجن کی کمی سے موت ہوگئی تھی۔ چناں چہ ڈاکٹر کفیل نے ذاتی طور پر 12 سلینڈر کا انتظام کیا اور بچوں کی جان بچائی۔یوپی حکومت کی رپوٹ بھی یہی آئی کہ اگر ڈاکٹر کفیل پرائیوٹ سلینڈر کا ا نتظام نہ کرتے تو اموات کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی لیکن یوگی حکومت نے ڈاکٹر کفیل کو جیل میں بھیج دیا۔ بہر حال گورکھپور معاملہ سے جب کلین چٹ مل گئی تو جنو ری 2020 میں اشتعال انگیزتقریر کے الزام میں ان پر این ایس اے لگادیا۔دو مرتبہ حکومت نے اس کی مدت میں اضافہ کردیا۔ ڈاکٹر کفیل کی والدہ نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے کہاکہ وہ پندرہ دنوں میں اس کا فیصلہ کرے اور بالآخر الہ آباد ہائی کورٹ نے نیشنل سیکوریٹی ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا۔ صاف طور پر کہاکہ این ایس اے کا لگانا غلط تھا۔ڈاکٹر کفیل کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ فوری طور پر رہائی کا حکم جاری کیا۔

مختلف ہائی کورٹ کے یہ فیصلے تاریکی میں امید کی کرن ہیں۔ بھارت کے جمہوری نظام پر اعتماد کو پختہ اور مضبوط کرتے ہیں۔ ان فیصلوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ملک کی عدلیہ ابھی زندہ ہے۔ ابھی بھی انصاف کی امیدیں برقرار ہے۔ اقلیتوں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور مظلوموں کے حقوق کی نگہبانی اور پاسداری عدلیہ سے ہورہی ہے۔ جمہوریت ،ڈیموکریسی اور آئین ہند کا تحفظ عدلیہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔

بھارت کی تاریخ کا یہ کوئی پہلا موقع بھی نہیں ہے ۔ اگر کبھی عدالت پر کوئی آنچ آئی ہے ۔ ملک کے عدالتی نظام پر کسی سرکار نے قابو پانے کی کوشش کی ہے تو لاکھوں کی تعداد میں عوام نے سڑکوں پر اتر کر عدالت کے وقار کو برقراررکھنے کی تحریک چھیڑی ہے ۔ ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ عدالت کے وقار کو ذرہ برابر بھی کوئی ٹھیس نہ پہونچے ۔ حالیہ دنوں میں پرشانت بھوشن کا معاملہ مسلسل سرخیوں میں ہے اور اس کی واحد وجہ عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے کی جدوجہد ہے ۔پرشانت بھوشن پر سپریم کورٹ کے جج ارون مشرا نے معافی مانگنے کیلئے بہت زیادہ دباﺅبنایا لیکن ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن اٹل رہے ۔ اپنے موقف پر قائم رہے اور بار بار دہرایا کہ میرا ٹوئٹ سپریم کورٹ کی توہین نہیں بلکہ اس کے وقار کو برقرار رکھنے کیلئے ہے ۔ اگر میں نے آج معافی مانگ لی تو کل ہوکر میراضمیر مجھے معاف نہیں کرے گا ۔ جن دنوں بابری مسجد کا مقدمہ چل رہاتھا سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون پر بہت زیادہ دباﺅ بنایاگیا ، دھمکیا دی گئی لیکن وہ انصاف کی آواز بلند کرتے رہے ۔ اپنے موقف پر قائم رہے ۔ کسی خوف اور ڈر کا شکار ہونے کے بجائے پوری مضبوطی اور قوت کے ساتھ انہیں بابری مسجد مقدمہ کی پیرو کی ۔اس جیسے اور بھی کئی اہم نام ہیں جنہوں نے کبھی عدالت کے وقار سے سمجھوتہ نہیں کیا اور ان کے ساتھ دینے کیلئے ملک بھر میں وکلاءججز سامنے آئے ۔

عدلیہ کی آزادی جمہوریت اور ڈیموکریسی کو مضبوط بناتی ہے اور جب جمہوریت مضبوط ہوتی ہے ۔ سبھی طبقات اور مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق ملتے ہیں ۔ سبھی کو امن وسلامتی نصیب ہوتی ہے تو پھر ملک ترقی کرتاہے ۔ عوام ترقی کرتے ہیں اور ملک کا مستقبل روشن وتابناک ہوتاہے ۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹر ی ہیں )