شعوری رائے دہندگی (Tactical Voting) کی ضرورت
ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندستان کی پانچ ریاستوں میں انتخابات سرپر ہیں۔ مختلف مراحل میں انتخابی عمل مکمل ہوگا۔ اترپردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں ہونے والے انتخابات ملک کے مخصوص ماحول کی وجہ سے بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ان ریاستوں میں سے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش ہے۔ وہاں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، جس کی جھولی میں سوائے تعصب اور دعوؤں کے کچھ نہیں ہے۔ اس کے دور حکومت میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف کئی سطحوں پر کوششیں کی جاتی رہیں۔ اس لیے اقلیتیں اس حکومت سے بالکل خوش نہیں ہیں۔ دوسری طرف اکثریتی طبقہ بھی ناخوش نظر آتا ہے۔ کیوں کہ اس حکومت نے اپنے ہم مذہب افراد کے اندر ذات برادری کی عصبیت کو شدید ہوا دی ہے۔ اس لیے موجودہ وزیر اعلیٰ کی ذات سے تعلق نہ رکھنے والے افراد، جن میں برہمن بھی شامل ہیں، اس حکومت سے ناخوش نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف سماج وادی پارٹی کو بہترین متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور ہر طرف اس کی ہوا بنتی نظر آرہی ہے۔ سماج وادی پارٹی نے چھوٹی بڑی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنے کا جو تجربہ کیا ہے، وہ خاصا مفید نظر آرہا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس، بہوجن سماج پارٹی اور دوسری سیکولر پارٹیاں بھی اپنی اپنی کوششیں کررہی ہیں۔ اترپردیش میں بعض مسلم پارٹیاں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں اور علاقائی سطح پر کچھ نہ کچھ طاقت کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں، لیکن اس مرتبہ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین نے اترپردیش کے انتخابات میں اتر کر خاصی ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔ الیکشن کے نتائج میں اس کا کیا فیصد رہے گا، یہ تو نتیجے آنے کے بعد ہی پتا چلے گا، لیکن خالص مسلم اتحاد پر مبنی ہونے کی وجہ سے اس پارٹی کا تذکرہ نیشنل میڈیا میں بھی ابھرا ہوا ہے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر یہ سمجھنا مشکل نہیں رہ جاتا کہ حالیہ انتخابات پانچوں ریاستوں کے لیے اور بالخصوص اترپردیش کے لیے بہت حساس اور خاصے دل چسپ بن گئے ہیں۔
انتخابات جمہوریت کی سب سے بڑی علامت اور طاقت ہوتے ہیں۔ عوام کے پاس اپنی مرضی کے مطابق اپنا لیڈر منتخب کرنے کا اختیار ہوتاہے۔ان کے پاس ووٹ کی طاقت ہوتی ہے جو کسی کی جیت اور ہار کا سبب بنتی ہے۔الیکشن کمیشن کی یہ ذمے داری سب سے اہم ہوتی ہے کہ وہ وقت پر انتخاب کرائے،صاف شفاف طریقے سے کرائے اور جمہوری نظام کو ذرہ برابر متاثر نہ ہونے دے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت اہمیت حامل ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا جائے۔ جتنی زیادہ ووٹنگ ہو گی، اتنا ہی جمہوری نظام مستحکم ہو گا۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ عوام کو اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ اسے پتا چلتا ہے کہ ملک کا جمہوری نظام ہمارے دم سے باقی ہے اور ہم ہی حکومت کو بناتے اور ختم کرتے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ مذکورہ پانچ ریاستوں کے انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں کے نتائج ملک کی آئندہ سیاست پر اثر انداز ہوں گے۔ ان ریاستوں کے انتخابی نتائج 2024 کا پیش خیمہ بھی بنیں گے۔ ملک اور عوام کے رجحانات کا اندازہ بھی ہو گا کہ وہ کس نہج پر سوچ رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں،سیاست دانوں،صحافیوں اور ماہرین کو 2024 کے متعلق سوچنے، سمجھنے اور تبصرہ کرنے کا ایک رخ ملے گا۔ ملک کی سیاسی فضا کا درست اندازہ ہوسکے گا۔ عوام کی ذہنیت واضح طور پر سامنے آسکے گی کہ ملک کے عوام کیا چاہتے ہیں؟ کس طرح کے لیڈروں سے دلچسپی رکھتے ہیں؟ کس پارٹی پر ان کا اعتماد ہے؟ ان کے ووٹ ڈالنے کی بنیاد کیا ہے؟جن لوگوں کو وہ ووٹ دیتے ہیں ان سے کیا توقعات وابستہ رکھتے ہیں؟ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ اقتصادی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ سال میں دس کروڑ روزگار دینے کا و عدہ کیا تھا، لیکن تقریباً سات سال گزرنے کے باوجود ملک کو روزگار نہیں مل سکا ہے۔ غریب، مزدور اور ناخواندہ طبقے کے ساتھ ساتھ پوری تعلیم یافتہ نسل پریشان اور بے چین ہے۔ حالات سے مجبور کر ہوکر پی ایچ ڈی ہولڈرز اب ڈھابے کھول کر روزی روٹی کمانے پر مجبور ہیں، تو کہیں پی ایچ ڈی ہولڈرز چپراسی اور کلرک بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو یاد ہو گا کہ راجستھان سرکار نے چپراسی کی ملازمت کے لیے ایک اشتہار نکالا تھا، جس کے لیے تقریباً دس لاکھ لوگوں نے درخواست دی تھی، جن میں سے دو سو پچاس پی ایچ ڈی ہولڈرز اور دولاکھ سے زائد گریجویٹ تھے، جب کہ اس ملازمت کے لیے صرف آٹھویں پاس کی لیاقت شرط تھی۔ یہ ایک واقعہ ملک کی اقتصادی خستہ حالی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ظاہر ہے کہ اس صورت حال کا شکار ملک کے عوام ہیں اور ملک کے عوام ہی انتخابات کے ذریعے حکومتوں کو تشکیل کرنے کا بنیادی سبب ہوتے ہیں۔ اس لیے سیاسی مبصرین اس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ یہ صورت حال موجودہ حکومت کی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔ انتخابات میں مختلف پارٹیاں اترتی ہیں اور جمہوری نظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہر پارٹی کی جانب سے مستقبل کا پروگرام جاری کیا جاتا ہے اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ اگر انھیں حکومت کرنے کا موقع دیا گیا تو وہ عوام کے مفاد میں فلاں فلاں اقدامات کریں گے۔ اپنی اپنی تشہیری مہم کے لیے ہر طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ کورونا کی وجہ سے ڈیجیٹل طریقے بڑے پیمانے پر اختیار کیے جارہے ہیں۔ اس لیے عوام کے لیے آن لائن انتخابی جلسوں اور انتخابی سرگرمیوں میں شریک ہونا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں عوام کے لیے بڑی آزمائش بھی ہے۔ انھیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ وہ شعوری رائے دہندگی (Tactical Voting) کا راستا اختیار کریں۔ اس بات کو سمجھیں کہ کون سا نمائندہ اور کون سی پارٹی کیا کہہ رہی ہے اور کیسے دعوے کر رہی ہے۔ وہ صرف عوامی بیانات کو پڑھ کر اور سن کر نہ رہ جائیں، بلکہ بین السطور (Between the lines) کو پڑھنے کی بھی کوشش کریں۔ ہمارے خیال سے کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے شعوری رائے دہندگی کی بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ سیاسی نمائندوں کو ملک کے دستور کے آئینے میں دیکھا جائے۔ جو نمائندہ اور جو پارٹی دستور کی بالادستی اور خاص طور پر دستور کی تمہید کو اپنے لیے نمونہئ عمل بنائے، اُسے حکومت سازی کا موقع دیا جائے۔ قابلِ حکومت اور ناقابلِ حکومت کا فیصلہ دستور کے تحفظ وعدم تحفظ کی بنیاد پر کیا جائے گا تو ملک بھی باقی رہے گا، ملک کی جمہوریت بھی باقی رہے گی اور ملک کے عوام بھی ایک عمدہ حکومت سے مستفید ہو سکیں گے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور محض جذباتی نعروں کو بنیاد بناکر ووٹنگ کی گئی تو عوام کا بھی نقصان ہے، جمہوریت کا بھی نقصان ہے اور عالمی پیمانے پر ملک کی ساکھ متأثر ہونے کا بھی قوی اندیشہ موجود ہے۔ کسی جمہوری ملک کے لیے نمائندے کے انتخاب میں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس بات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے کہ کون سی پارٹی اور کون سا نمائندہ اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کے لیے سنجیدہ ہے۔ کیوں کہ اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کے تحفظ کے بغیر کوئی جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ہمیں اس بات کا بھی گہرائی سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کون اقلیتوں کے ساتھ ہے اور کون ان کے ساتھ نہیں ہے۔ عام طور پر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے لوگ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر نمائندے اور پارٹی پر غور کیے ہوئے طے کر لیتے ہیں کہ ہمیں فلاں نمائندے یا پارٹی کوووٹ دینا ہے اور فلاں کو ہرگز ووٹ نہیں دینا ہے۔ اس طرز عمل کو سوجھ بوجھ پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ شعوری رائے دہندگی کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ ہمیں علاقے، ماحول، نمائندے، پارٹی اور پورے ملک کی صورت حال کا اچھی طرح اندازہ ہو۔ اس کے بعد ہم اپنے اپنے علاقوں میں ووٹ دینے کا عمل انجام دیں۔ کسی بڑے فائدے کے لیے چھوٹے فائدے کو قربان کرنا پڑے، تو کر دیں۔ جذباتیت کے بجائے مخلصانہ جذبے سے کام لیں اور اسی جذبے کے ساتھ انتخابی عمل میں شریک ہوں۔ شعوری رائے دہندگی (Tactical Voting) کے لیے مذکورہ بالا اصولوں کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک ضروری کام اور کرنا ہو گا۔ وہ یہ کہ ہم شعوری رائے دہندگی کو صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اسے دوسروں تک بھی لے جائیں۔ سب لوگوں سے ملتے جلتے رہیں، علاقوں کے اہم افراد کے ساتھ دوسرے طبقات سے ملاقاتیں کرتے رہیں، انتخابی عمل کو سنجیدگی کے ساتھ انجام دینے اور زیادہ سے زیادہ ووٹنگ کرنے کے لیے متوجہ کرتے رہیں۔ ساتھ ہی اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ زیادہ سے لوگوں کو ایسے نمائندے کو ووٹ دینے کی راہ ہموار کر سکیں، جو آئین کے تحفظ، دستور کی بالادستی اور جمہوریت کی بقا کے ساتھ کسی قیمت پر سودا کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔ اگر اس شعور کے ساتھ انتخابی عمل میں اترا جائے گا تو غالب گمان ہے کہ اس کے اچھے نتائج ہوں گے اور ملک کو مضبوط جمہوریت اور بہترین حکمراں مل سکیں گے۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں۔) |