تحفظ دستور سے مسلم خواتین کو انصاف دلانے تک
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
وزیر اعظم نریندر مودی نے بنڈیل کھنڈ کے مہوبہ میں انتخابی بگل پھونکتے ہوئے جس طرح مسلم خواتین کے تئیں ہمدردی ظاہر کی ہے اس سے ایک بات تو صاف ہوگئی ہے کہ ان کی یہ ہمدردی اترپردیش اسمبلی انتخابات کے تناظر میں اچانک سامنے آئی ہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس ایشو کو انتخابی موضوع بنانے پر کام کررہی ہے تاکہ ایک ایسا جذباتی ماحول بن سکے جس سے وہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ سکے۔ اس لیے بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور وزیر اعظم اس سے انھیں بچانے کی کوشش کریں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس ملک کا نظام جس دستور کے تحت چل رہا ہے اس میں شگاف ڈالنے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس طرف سے توجہ ہٹانے کے مقصد سے ایک ایسے ایشو کو سامنے لایا گیا ہے جو فی الواقع ہے ہی نہیں۔ دو سال سے زائد عرصہ کی حکمرانی میں جس طرح ملک کے دستور سے کھلواڑ کیاگیا اس سے اس خدشہ کو تقویت ملتی ہے کہ فاشسٹ عناصر، آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں اس دستور کو ختم کرنے کے درپے ہیں تاکہ یکساں حقوق واختیارات کے ضامن سیکولر دستور کو منواسمرتی سے بدل دیاجائے اور برہمن ازم کو پروان چڑھایا جاسکے۔ مرکز کی بی جے پی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے اقتدار میں آتے ہی لوجہاد، گھر واپسی اور گؤ رکشا کو بنیاد بناکر پورے ملک میں جس طرح اقلیتی طبقہ کو حراساں کیا گیا اور انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ خود کو فسطائی عناصر کے مقابلے محب وطن ثابت کریں۔ جس کا طریقہ ان کے نزدیک یہ تھا کہ مسلمان اس بات کو تسلیم کرلیں کہ ان کے اور ہمارے پوروج ایک تھے اور جب پوروج ایک تھے تو پھر گھر واپسی میں ان کا استقبال ہے۔ یہ طریقۂ کار ملک کے سیکولر دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کے بالکل خلاف تھا اس کے باوجود مرکزی حکومت نے ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرکے دستور کی روح کو مجروح ہونے دیا۔ اس سے ان عناصر کے حوصلے بلند ہوگئے اور گؤ رکشکوں کی شکل میں غنڈوں کی ایک ٹولی سامنے آئی جو سماج کے کمزور اور غریب طبقات کو نشانہ بنانے لگی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر خود ہی سڑکوں پر اس طرح فیصلے کرنے لگی کہ ہاتھ پیر باندھ کر پٹائی کرتے اور اس کا ویڈیو وائیرل کرتے تاکہ ان کی دہشت لوگوں کے دلوں میں باقی رہے۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا جب پارلیمنٹ خود شرمشار ہوگئی لیکن برسراقتدار طبقہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ سادھوی نرنجن یادو نے مسلمانوں کو جس طرح گالی دی وہ ہندستانی پارلیمنٹ کی واحد مثال ہے۔ وہ الفاظ اتنے گندے اور اخلاق سے عاری ہیں کہ انھیں نقل کرنا بھی اس گناہ میں شریک ہونے کے برابر ہے۔ سادھوی کے اس نازیبا بول پرکسی نے انھیں پارلیمانی آداب سکھانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی حکومت کی جانب سے ان کی سرزنش کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے وہاں سے نکل کر دہلی کے ایک عوامی پروگرام میں پھر اسی گالی کو دہرایااس کے باوجود حکمرانوں پر غفلت طاری رہی۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اسی ٹولے کے دیگر لیڈروں نے یکے بعد دیگرے کچھ اسی قسم کے اہانت آمیز اور حقارت آمیز جملوں کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا حتی کہ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے تو یہاں تک کہدیا کہ مسلمانوں سے آرپا رکی لڑائی کا وقت آگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک میں اقلتیں دستور میں دی گئی آزادی کی بنیاد پر اپنی آزادانہ زندگی گزار رہی ہیں لیکن انھیں اس طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے وہ کوئی لڑاکو قوم ہو۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ جو طبقہ اقلیت میں ہو وہ خود کو اکثریت سے مقابلے پر لائے اس کے برعکس اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقہ کے رسم ورواج کو ختم کرکے اس کی شناخت کو مٹانے کے درپے ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نریند رمودی نے حلف لینے کے بعد جب پارلیمنٹ گئے تو وہاں ماٹھا ٹیکا جس سے عام تاثر یہ ملنے لگا کہ جس دستور کے تحت انھوں نے حلف لیا ہے اس دستور کی وہ پاسداری کریں گے جو کہ ان کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن وزیر اعظم نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا۔ شرپسند عناصر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور خود کو بیرون ملک میں ایک ایسے سفیر کے طور پر پیش کیا جو ہندوستان کا نمائندہ نہیں بلکہ برہمنی نظریات کا نمائندہ ہو۔ اپنے غیر ملکی سفر میں انھوں نے جاپان کو گیتا کا تحفہ دیا۔ گیتا یقیناًایک مذہبی کتاب ہے جس کا احترام کیا جاتا ہے لیکن بیرون ملک سربراہوں کو گیتا دینے کا کیا مطلب؟ اگر ایسا ہی تھا تو انھیں ملک کا دستور دینا چاہیے جو آج بھی دنیا کے بہترین دستوروں میں سے ہے، اسے دیتے اور بتاتے کہ ہمارا ملک اس لیے عظیم ہے کیونکہ اس کے تحت نظام حکمرانی قائم ہے۔ ملک کا بجٹ اس لحاظ سے بہت اہم ہوتا ہے کہ وزیر خزانہ کے بریف کیس میں سماج کے کمزوروں اور اقلیتوں کے لیے کیا کچھ ہے۔ لیکن اس حکومت میں الٹا معاملہ دیکھا گیا جب بجٹ آیا تو اس سے وہ تمام چیزیں جو بنیادی ضروریات کے تحت آتی ہیں اور جن تک عام عوام کی رسائی نہیں ہوتی ہے حکومت ان تک ان چیزوں کو رعایتی داموں پر پہونچاتی ہے۔ بجٹ میں صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کے بجٹ کو بڑھتی طبی سہولیات اور تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے بڑھانے کے بجائے اور گھٹادیا۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کمزور طبقات ہیں وہ جسمانی طور پر صحت مند نہ ہوں بلکہ صرف زندہ رہنے کے لیے زندہ رہیں تاکہ انھیں منواسمرتی کی روشنی میں ان سے سلوک کیا جاسکے۔ اسی طرح تعلیم کو مہنگی کرکے عام لوگوں سے دور کرنے کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما نظر آتی ہے کہ اگر ان کے بچے پڑھیں گے تو آنے والا کل ان کا ہوگا لہٰذا ابھی سے پیش بندی کی جائے تاکہ پہلے مرحلے پر ہی یہ طبقات شکست سے دوچار ہوجائیں اور ان کا حوصلہ پست ہوجائے۔ جس سے ان طبقات کا استحصال کرنے میں آسانی ہو۔ یہ طرز عمل کسی بھی لحاظ سے سماج کے صحت مند رجحان کا آئینہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ دستور کی منشاء کو پورا کرتا ہے بلکہ یہ ملک کے دستور اور اس کی سوچ کے خلاف ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ملک کی اقتصادی رفتار بڑھنے کے بجائے گھٹی ہے حتی کہ بعض سیکٹر س میں روزگار میں بھی کمی آئی ہے جس کا اعتراف چیمبر آف کامرس کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ ابھی حال میں جو رپورٹ آئی ہے وہ بھی اسی گراوٹ کو ثابت کرتی ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ 2017’برائے کاروباری پوزیشن‘ جو کہ 25اکتوبر 2016 کو جاری کی گئی ہے میں بتایاگیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہندستان کا مقام 130واں ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ملک کی اقتصادی سرگرمیوں میں گراوٹ آئی ہے۔ خود ملک کے مشہور صنعتکار رتن ٹاٹا نے بھی اپنے ایک بیان میں ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی اور بے لگام ہوتے فسطائی ٹولے کی حرکتوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے نقصان دہ بتایا تھالیکن اس کے باوجود حکومت نے سماج میں بڑھتی فرقہ پرستی پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور شر پسندعناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرکے انھیں کھلی چھوٹ دے دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے مقاصد میں بڑھتے گئے اور ملک اقتصادیات میں پیچھے ہوتا چلا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ حالات اس لیے پیدا ہوئے کہ مودی حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داری کو نبھانے کے بجائے سنگھ پریوار کی ہدایت کے مطابق کام کیا اور ملک کے دستور کو نظر انداز کردیا۔ ایک ایسے وقت جب حکمراں طبقہ کی جانب سے ملک کے سیکولر دستور کو مسترد کیا جارہا ہو، مسلم خواتین کے لیے ہمدردی کے آنسو کسی گھڑیالی آنسو سے کم نہیں ہیں۔ جو حکومت دستور کے تحفظ میں ناکام ہے وہ مسلم خواتین کا تحفظ کیونکر کرسکے گی؟ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |