تمام بنی آدم ایک ہیں
ڈاکٹر محمد منظور عالم
تمام بنی آدم حضرت آدم کی اولاد ہیںاور وہ پوری دنیا کے انسانوں کے والد ہیں ۔ امریکہ ، یورپ ، افریقہ ، ایشیا ، چین روس کرہ ارض پر جہاں بھی کوئی انسان آباد ہے ، یا چاند پر اس نے رہائش شروع کردی ہے یا کہیں او رجاکر بسا ہوا ہے سبھی کا شجرہ نسب ایک ہی انسان سے ملتاہے ۔ اس لئے انسانوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفرق نہیں ہے ، ذات ، علاقہ ، خطہ ، مذہب اور نسل کسی بھی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تفریق نہیں برتی جاسکتی ہے ، صرف تمام بھارتیہ اور ہندوستانی شہری ایک اور یکساں حقوق کے حقدار نہیں بلکہ پوری دنیا کے ایک انسان ایک جیسے ہیں ، ایک طرح کے حقوق کے حقدار ہیں کیوں کہ سبھی ایک آدم کی اولاد ہیں ، کسی کو کسی پر کسی بھی بنیاد پر کوئی فوقیت نہیں دی جاسکتی ہے ، ترجیح اور فوقیت کی بنیاد اللہ تعالی کے نزدیک صرف اور صرف تقوی ہے ، بقیہ تمام انسان ایک ہیں ، سبھی ایک جیسے سلوک کے حقدار ہیں ۔
اسلام کا یہ بنیادی فلسفہ ہے جس کی بنیاد انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ پر ہے ، اسی اصول پر دنیا کے تمام انسانوں کے ان کے بنیادی حقوق مل سکتے ہیں ، انہیں عزت او راحترام مل سکتا ہے ، ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی نہیں ہوسکتی ہے ، کسی طرح حق نہیں مارا جاسکتاہے ،اسلام کا یہی اصول دنیا کے تمام انسانوں کو ایک جیسے سلوک کا حقدار سمجھتاہے ، آزاد ی کا پروانہ عطا کرتاہے ، انسانوں کو انسانوں کا غلام نہیں بناتاہے اور نہ کسی کو اس بات کی اجازت دیتاہے کہ وہ انسانوں کو غلام بنائے ، جانوروں جیسا سلوک کرے ، انسانوں کے درمیان تفریق کرے ، انسانوں کو اپنے خودساختہ قوانین اور اصولوں پرعمل کرنے کیلئے مجبور کرے ۔ بھارت میں جس طرح انسانوں کے خودساختہ قوانین کی بنیاد پر انسانوں پر ظلم کیا جاتاہے ، بنیادی حقوق سے محروم رکھاجاتاہے ، ظلم وستم ڈھایا جاتاہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے اور اس کو ختم کرنے کی ضرروت ہے ۔ لیکن آج تک بھارت میں یہ ذہنیت ختم نہیں ہوئی ہے ،آج بھی یہاں دلتوں کو برہمنوں اور راجپوتوں کی بستی سے گزر نے کا حق حاصل نہیں ہے ، دلتوں کو گھوڑے پر سوارہوکر شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے ، برہمنوں کی بستی سے دلتوں کا بارات لیجانا جرم گردانا جاتاہے ، ایک محلہ میں گھر کی تعمیر ، ایک ساتھ طعام ، ایک ساتھ قیام اور ایک ساتھ کام تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتاہے ۔ڈاکٹر بھیم راﺅ امبیڈ کر جیسے شخص کو بھی محض دلت ہونے کی بنیاد پر اس طرح کے سنگین حالات کا سامنا کرناپڑا تھا اور آج بھی ان کی کمیونٹی کے ساتھ یہی ہورہاہے ، خاموشی کے ساتھ منواسمرتی کے نظام کو نافذ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے تاکہ دلتوںکو آئین میں حاصل حقوق بھی نہ رہے اور دوبارہ وہ مخصوص نسل کی غلامی شروع کردیں ۔ اس مہم کو کامیاب بنانے اور غلامی کے جال میں پھنسانے کیلئے چکنی چپڑی باتوں کا سہارالیتے ہوئے کہاجاتاہے کہ تمام بھارتیہ ایک جیسے ہیں ، سبھی کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیئے ، کسی ذات اور دھرم بدلنے کے بجائے طرز زندگی بدلنا چاہیئے تاکہ دلتوں کو مغالطہ میں رکھاجائے ، انتخابات کے دوران اس طرح کی باتیں کرکے انہیں اپنی جانب مائل کیا جائے ، ان کو احساس دلایاجائے کہ اب تفریق ختم ہوگئی ہے اور الیکشن میں کامیابی ملنے کے بعد دوبارہ پہلے سے زیادہ ظلم شروع کردیاجاتاہے اور قانونی طور پر غلام بنانے کی تیاری شروع ہوجاتی ہے ۔ بہر حال سبھی انسان برابر ہیں ۔ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت اور امتیاز حاصل نہیں ہے ۔امریکہ میں پیدا ہونے والے ایک انسان کی وہی حیثیت ہے جو افریقہ کے جنگل میں رہنے والے سیاہ فام کی ہے ۔ عرب سے تعلق رکھنے والا ایک انسان بھارت سے تعلق رکھنے والے انسان کے برابر ہے ۔ نسل ذات ، مذہب ، علاقہ اور خطہ کی بنیاد پر کسی کو کسی پر کوئی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے ۔ سبھی برابر اور ایک ہیں ۔اسلام کا بنیادی پیغام دنیا میں اسی مساوات کے پیغام کو عام کرناہے کہ سبھی انسان برابر ہیں ۔ ذات مذہب اور نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہوسکتی ہے ۔ بطور انسان دنیا میں پیدا ہونے والے سبھی اللہ تعالی کے بندے ہیں اور سبھی یکساں حیثیت کے مالک ہیں ۔ اسلام نے ذات ، نسل اور علاقہ کی بنیاد پر ذرہ برابر کسی کو فوقیت نہیں دی ہے۔ ایسی سوچ اور ایسی حرکتوں کی شدید تنقید کی ہے ۔ اسلام کی نظر میں سبھی آزاد ہیں ۔ اسلام انسان کے ہاتھوں انسانوں کی غلامی کے خلاف ہے ۔ مذہب اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ شامل ہے کہ اللہ تعالی کے سبھی بندے روئے زمین پر آزاد ہیں ۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو غلام بنائے لیکن دنیا کی تاریخ کا یہ افسوسناک ورق ہے کہ طاقتور لوگوں نے غریبوں کو غلام بنایا ۔ نسل اور ذات کی بنیاد پر فخر کرکے دوسری نسل اور ذات کے لوگوں کی توہین کی ۔ انہیں اپنا غلام بنایا ۔ خود کو آقا کے طور پر پیش کیا اور کمزور لوگوں کو غلام بناکر ان سے اپنی زندگی کا سار ا کام کرایا ۔ تمام انعامات اور اہم چیزوں کا مالک خود کو بنالیا ۔ سبھی اللہ تعالی کی سبھی نوازشات اور اہم تخلیقیات کو صرف اپنے لئے خاص کرلیا اور سماج کے کمزور ، مظلوم طبقات کو ان سے محروم کرکے اپنی خدمات پر مامور کردیا ۔ دنیا کی مختلف قومیں اس کی مرتکب ہوئی ہیں ۔ بھارت اس کا سب سے زیادہ شکار ہے جہاں انسانوں کے درمیان صدیوں سے شدید تفریق برتی جارہی ہے اور ایک خود ساختہ قانون کی بنیاد پر بعض انسان دوسرے بعض انسان کا شدید استحصال کرتے آرہے ہیں ۔ امریکہ اور یورپ بھی اس مرض میں مبتلا ہیں جہاں سیاہ فام ہونا جرم او رسفید فام ہونا باعث فخر سمجھاتاہے ۔ اسلام اس امتیاز کے شدید خلاف ہے ۔ وہ سبھی کو ایک نگاہ اور ایک نظر سے دیکھتاہے اور یہ کہتاہے کہ بطور انسان سبھی برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر نسل ، ذات ، علاقہ ، پیسہ ، رنگ ،نسل اور زبان کی وجہ سے کوئی برتری حاصل نہیں ہے ۔ برتری اور فخر کی وجہ صرف اور صرف علم اور تقوی ہے ۔ محض علم اور تقوی کی بنیاد پر ہی کسی کو کسی پر فوقیت دی جاسکتی ہے اور اسی علم کو سماج کے ترقی یافتہ اور مخصوص گروہ نے چھپادیا ۔ سماج کے دوسرے طبقہ کو علم کی روشنی سے محروم کرکے اسے اپنا غلام بنادیا۔ ان کی سوچ تھی کہ اگر انہوں نے بھی علم حاصل کرلیا تو ہمار ے خودساختہ قانون کا پردہ فاش ہوجائے گا ۔ ہماری کوششیں ناکام ہوجائیں گی ۔ ان پر حکمرانی کا خواب چکنا چو ر ہوجائے گا اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب انہیں علم حاصل ہوگا اس لئے انہیں حصول علم سے روک دو۔ تعلیم کو محدود کردو ۔ ان سے صرف کام کراﺅ ۔ انہیں بتاﺅہی مت کہ علم ہوتاہے کیا ہے ۔ اس کے برعکس اسلام نے شروع سے علم پر زور دیاہے ۔ قرآن کریم کی پہلی آیت بھی علم سے متعلق ہے ۔ اسلام کا بنیادی نظریہ یہی ہے کہ علم انسان کو معزز بناتاہے ۔ علم آنے کے بعد انسان میں غور وفکر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ تعلیم یافتہ انسان کو غلام بنانا ممکن نہیں ہوتاہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان مساوات کو فروغ ملتاہے ۔ بھائی چارہ ، اخوت ومحبت اور انسانیت کا فروغ بنیادی امور میں سے ایک ہے ۔ معاشرہ کی سلامتی ، سماج کی ترقی اور ہم آہنگی کیلئے ضروری ہے کہ آپس میں بھائی چارہ قائم رہے ، ایک دوسرے کے تئیں الفت ومحبت رہے ، مذہب ، نسل اور خطہ کے علاحدہ ہونے کی بنیاد پر دلوں میں کسی سے کسی طرح کا کوئی بغض نہ رکھاجائے ،کوئی نفرت نہ کی جائی کیوں کہ آپسی محبت اور الفت ہی بنیادی چیز ہے جس سے سماج او رمعاشرہ میں بہتری آتی ہے ، نفرت ، عداوت اور حسد سے بگاڑ پیدا ہوتاہے ، اس لئے تمام بنیادی امور کے ساتھ بھائی چارہ قائم کرنا ضرروی ہے ۔ آج کے حالات میں یہ جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ کیا دنیا میں ہر ایک انسان کو انصاف ۔ مساوا ت ۔ آزادی اور تحفظ فراہم ہے؟ سماج اور معاشرہ میں بھائی چارہ قائم ہے؟۔ کیا دنیا کے سبھی ممالک میں سبھی انسانوں کو یہ حقوق مل رہے ہیں ۔ کیا ہر ایک انسان کے ساتھ یکساں معاملہ برتاجارہاہے ۔ اکیسویں صدی میں یہ دعوی ضرورکیا جاتاہے کہ انصاف ہر ایک کا حق ہے ۔ مساوات اور آزادی ہر ایک کو ملنی چاہیئے لیکن سچائی اس کے برعکس ہے ۔ آج بھی دنیا میں نسل ۔ مذہب ۔ علاقہ ۔ رنگ اور نسل کی بنیاد پر امتیاز برتاجاتاہے ۔ کسی کو بڑاو ر کسی کو چھوٹا سمجھاتاہے ۔ غربت اور امیری کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان شدید امتیاز برتاجاتاہے ۔ کسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور کسی کو قدر کی نگاہ سے جبکہ انسانی وصف کے اعتبار سے دونوں یکسا ںہیں ۔ دونوں کی حیثیت ایک ہے ۔ دونوں یکساں سلوک کے مستحق ہیں ۔ دونوں تعظیم او رتکریم کے حقدار ہیں لیکن دنیانے اپنا ایک نظام بنالیاہے جس کی بنیاد پر تفریق برتی جاتی ہے ۔انسان کو انسان نہیں سمجھاتاہے ۔ انسان کی تکریم کی بجائے اس کی تذلیل اور تحقیر کی جاتی ہے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر انسانوں کی توہین آج کی دنیا کا فیشن بن گیاہے ۔ انسانیت کی یہ تذلیل اور تحقیر دنیا کیلئے سیاہ داغ اور کلنک ہے ، انسانی وقار کے شدید منافی ہے ۔ انسانوں کے درمیان کسی بھی بنیادپر کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیئے، انصاف ، مساوات ، آزادی او ربھائی چارہ قائم رہنا چاہیئے کیوں کہ تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں ۔اسلام تمام انسانوں کو یہ دعوت بھی دیتاہے کہ وہ خود بھی مطالعہ کریں اور حقیقت کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلیم کریں ۔انسانی جانوں کے تحفظ اور اکرام انسانیت کے تعلق سے اسلام کے فلسفہ پر غورو فکرکریں ۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں ) |