تاریخ کے ذریعہ بہتر مستقبل کی تخلیق !
شمس تبریزقاسمی
انسانی تہذیب کے ارتقا،سماجی ترقی ،باہمی ہم آہنگی اور اتحادویکجہتی کے فروغ میں صحیح تاریخی روایات ،درست واقعات نگاری اور اصل معاملات کو پیش کرنے کا بھی ہمیشہ کلیدی رول رہاہے ،ہندوستان کی فرقہ ورانہ ہم آہنگی میں پیداشدہ دراڑ،ہندومسلم اختلافات ،سماجی انتشار اور علاقائی ،مذہبی ولسانی عصبیت کے فروغ میں نمایاں کردار غلط تاریخ نگاری نے بھی پیش کیا ہے ،مورخین کی جانب داری ،عصبیت اور حقائق کے بجائے اپنی جانب سے باتوں کے پیش کرنے کی بنیاد پر سماجی ہم آہنگی کو شدیدہ خطرہ پہونچاہے ۔سماجی تانا بانا بکھرا ہے ،گنگاجمنی تہذیب حقیقت سے فسانہ میں تبدیل ہوگئی ہے ،جبکہ ہندوستان جیسے ملک میں درست تاریخ نگاری اور اصل حقائق کا لکھنا اور ضروری ہوتاہے جہاں مختلف اوقات میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی حکومت رہی ہے اور آج بھی یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ہندوستان میں بدھسٹوں کی حکومت رہی ہے ،آٹھ سو سالوں تک مسلمانوں نے بھی یہاں حکومت کی ہے ،عیسائیوں کی بھی یہاں سرکار رہی ہے ،آریہ سماج سمیت کئی دیگر قوموں نے بادشاہت کی ہے ایسے میں ایک مورخ جب اصل واقعہ کے بجائے تعصب سے کام لیتاہے ،مورخ کا قلم ذات او رمذہب کے خول سے باہر نہیں نکل پاتاہے ،مذہبی عینک لگار تاریخ لکھتاہے تو پھر معاملہ خراب ہوجاتاہے ، آنے والی نسلوں میں انتشار بڑھتا جاتاہے ۔فکری سطح پر دوریاں بڑھ جاتی ہیں،نظریاتی تناﺅ شروع ہوجاتاہے،نصاب تعلیم کی بنیاد پر بچوں کا ذہن نفرت زدہ ہوجاتاہے ،سماجی ،معاشی سمیت کئی سطح پر سوسائٹی کو شدید تباہی وبربادی کا سامناکرناپڑتاہے۔
ہندوستان کی سماجی ہم آہنگی کولاحق خطرات ،برسوں سے ہندومسلم اتحاد میں پیداہ دراڑ اور سماجی انتشار کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کچھ مورخین نے تاریخ لکھتے وقت انصاف سے کام نہیں لیا ،قلم کا انہوں نے غلط استعمال کیا ،مسلم حکمرانوں کے کارناموں کو غلط انداز میں پیش کیا ۔شمس الدین التمش ،علاﺅ الدین خلجی ،ابراہیم لودھی ،ظہیر الدین بابر ،اورنگزیب عالمگیر اور ٹیپوسلطان کی تاریخ لکھتے وقت اصل حقائق کو پیش کرنے کے بجائے کچھ غیر مسلم مورخین نے جانبداری سے کام لیاہے ،کچھ نے کئی سنگین الزامات عائد کئے ہیں ،منفی چیزوں کا خصوصیت سے تذکرہ کیا ہے ،ان کے مثبت اوردیگر مذاہب کے درمیان روداری قائم کرنے کے مقصد سے کے گئے کاموں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے،کچھ نے اپنی تاریخ میں ان حکمرانوں کی طرف ایسی چیزیں بھی منسوب کی ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ملتاہے ،آزادی کے بعد تاریخ لکھنے والے مورخین نے سب سے زیادہ جانبداری، عصبیت دروغ گوئی اور بددیانتی سے کام لیاہے ۔ان مورخین کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ اصل مقصد تاریخ بتانا،قدیم معاشرہ سے آگاہ کرنااور ماضی کے حالات کو سپرد قرطاس کرنا نہیں بلکہ نئی نسل کے ذہنوں کو زہر آلود کرنا،مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا نا او رسماج کو اشتعال انگیز بناناہے ۔ ایسے مورخین کی تاریخ کی وجہ سے ہندوستان کا موجودہ ماحول دن بدن خراب ہوتاجارہاہے ،فرقہ وارانہ اختلافات بڑھتے جارہے ہیں ،نئی نسلوں کا ذہن ایک سماج کے تئیں زہر آلود ہوتاجارہاہے ،انہیں تاریخوں کی بنیاد پر نصاب تعلیم کو بھی مرتب کیا جارہاہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ ملک کا موجودہ میڈیا ایسی ہی تاریخوں کو بنیاد بناکر تاریخ بیان کررہا ہے ،اسٹور ی لکھ رہا ہے ۔ ماضی کے اوراق کو عوام کے سامنے پیش کررہا ہے اور عوام کے درمیان نفرت کا بیج بوکر یہاں کی ہندومسلم یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح تاریخ پیش کی جائے ،ماضی کے صحیح واقعات عوام تک پہونچاءجائیں ،تاریخ میں کئے گئے خردبرد کی نشاندہی کی جائے اور اصل تاریخی مواد کو سامنے لایاجائے ۔ مورخین ،ریسرچ اسکالرس،مصنفین،اساتذہ،جرنلسٹ اور دیگر معاشرہ پر اثر انداز ہونے والے افراد حقائق پیش کریں ،صحیح تاریخ بیان کریں ،اصل ماخذتک پہونچ کر سچائی اور حقیقت بیانی کو ترجیح دیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کا تھینک ٹینک سمجھانے والا ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیزاپنے کئی اہم کاموں کے ساتھ ان دنوں اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے پر بھی عمل پیرا ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ پر مشتمل کئی کتابیں آئی اوایس کی جانب سے شائع کی گئی ہے اور اب 30 سال مکمل ہونے پر انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام 30 سالہ تقریبات کے پیش نظر ملک کے متعدد شہروں میں سمینار کے انعقاد کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ اب تک کولکاتا،جودھپور ،چنئی اور دہلی میںاسی موضوع پر چار سمینار کا انعقاد کیاجاچکاہے۔ اس سلسلے کا پانچواں اور آخری سمینا ر16 تا18 فروری 2018بروز جمعہ ،سنیچر ،اتوار کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ہونے جارہاہے جس میں ملک وبیرون ملک کے نامور مورخین ،اسکالرس ،علماء،ماہرین قانون داںاور دانشوران شرکت کررہے ہیں ۔ سمینار کا مرکز ی عنوان ہے ” ہندوستان کے موجودہ سیاق مساوات ،انصاف اور بھائی چارے کی جانب :ایک بہتر مستقبل کی تخلیق“ افتتاحی ، اختتامی اور ایک خصوصی اجلاس کے علاوہ یہ سمینار کل 14 نشستوں پر مشتمل ہے ،افتتاحی اجلاس میں سپریم کورٹ آف انڈیاکے سابق چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیر،سابق مرکزی وزیر کے رحمن خان ۔ انٹرنیشل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھوٹس (امریکہ ) کے جنرل سکریٹری پروفیسر عمر حسن کاسولے ،انٹرنیشنل اسلامک چیرٹیبل کویت کی جنرل سکریٹری محترمہ عروبہ اے وائی اے ایچ الرفاہی ،سابق چیف جسٹس اے احمد ی ،محترمہ سید النساءسید، معروف فقیہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،پروفیسر فیضان مصطفی سمیت درجنوں انٹر نیشنل اسکالرس ،دانشوران اور علماءکی شرکت ہوگی ۔ یہ سمینار تاریخی ،بے پناہ اہمیت کا حامل اور وقت کی اہم ضروت ہے ،یہاں اہل علم ،دانشوران اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھ بیٹھ کر گفتگو کریں گے ،ایک لائحہ عمل طے کریں گے۔ ملک وملت اور معاشرہ کیلئے کیلئے سوچ وفکر کی ایک نئی راہ کھلے گی ، آئین ،دستور میں دی گئی آزادی کی بات ہوگی ،انسانی زندگی میں مساوات ،انصاف اور بھائی چارے کی اہمیت پرگفتگو ہوگی ۔ سمینار کی اہمیت کو سمجھے کیلئے ہم یہاں ذیلی عناوین بھی لکھ رہے ہیں ۔ دستور ہند کی ہندروشنی اقلیتوں کیلئے مساوات ،انصاف اور بھائی چارے کے تصورات پر مبنی فکری بنیایں۔ آفاقی خاندان کی تشکیل میں اعلی تعلیم کا مقام وکردار :قومی تناظر میں ۔اقوام متحدہ او ردیگر اداروں کی فکر مندی کی روشنی میں اقلیتوں کیلئے مساوات ،انصاف اور بھائی چارے کے تصورات پر مبنی فکری بنیادیں۔آفاقی خاندان کی تشکیل میں اعلی تعلیم کا مقام وکردار :عالمی تناظر میں ۔ مختلف جہتوں میں تبدیلی کے انداز وعناصر :عوامی صحت ۔بین الاقوامی تعلقات کی شکلوں میں پر اثر انداز ہونے والی مساوات ،انصاف اور بھائی چارے کی قدروں کا کردار ۔ف جہتوں میں تبدیلی کے انداز وعناصر :ٹیکنالوجی و ترقیاتی نمونے۔ بین الاقوامی تعلقات کی شکلوں پر اثر انداز ہونے والی مساوات،انصاف اور بھائی چارے کی قدروں کا کردار : بین الاقوامی تعلقات میں غالب رجحانات۔ مساوات ،انصاف اور بھائی چارے کے حوالے سے آج کی سمٹتی دنیا میں قومی وبین الاقوامی قانون کا کردار:قانونی نظام ۔ مساوات ،انصاف اور بھائی چارے کے حوالے سے آج کی سمٹتی دنیا میں قومی وبین الاقوامی قانون کا کردار: گلوبلائزیشن کے عہد میں بین الاقوامی قانون ۔ معاشی ترقی اور غربت کا خاتمہ : مساوات ،انصاف اور بھائی چارے کی قدروں کا کردار اور بین الاقوامی اقرار وعہد ۔ مساوات ،انصاف اور بھائی چارہ کی قدروں کے فروغ میں قومی وعلاقائی ذرائع ابلاغ کا کردار وعمل ۔ مساوات انصاف اور بھائی چارے کی قدروں کے فروغ میں عالمی ذرائع ابلاغ کا کردار وعمل ۔ یہ سمینار کے تکینی اجلاس کے موضوعات ہیں اس کے علاوہ 16 کی شام کو افتتاحی اجلاس کے بعد ایک خصوصی اجلاس ہوگا جس میں اسلام ،ہندو ازم،عیسائیت ،بدھ ازم ،سکھ مت اور جین مت سمیت کئی مذاہب کے رہنماءشریک ہوں گے اور ہندوستان کے موجودہ حالات میں مذاہب کے کردار پرمذاکرہ کا انعقاد ہوگا ۔ آئی او ایس کی یہ خدمات اور فکری ونظریاتی سطح پر ملک کو صحیح رخ پر لیجانے کی یہ کاوش قابل صد ستائش ہے ،اس کا سہرا انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیرمین ،بین الاقوامی اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد منظور عالم کو جاتاہے ،آپ بلامبالغہ گذشتہ تیس سالوں سے اس مشن کو انجام دینے میں مصروف عمل ہیں اور دنیا بھر میں اس کی خدمات کو سراہاجارہاہے ،ہم آپ قارئین سے گزارش کریں گے کہ اس سمینار میں شرکت کیجئے ،حصہ لیجئے ،اگر آپ دہلی کے باہر ہیں تو آن لائن دیکھیئے ،ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر یہ پروگرام لائیو بھی نشر کیا جائے گا ۔ (کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں ) |