وضاحت کی ضرورت ہے
ڈاکٹر محمدمنظور عالم

سپریم کورٹ، مرکزی حکومت اور سول سوسائٹی کے درمیان آدھار کارڈ کو لیکر چھڑی بحث ادھر لگاتار نئے ایشوز کو جنم دے رہی ہے۔ حالانکہ یہ بحث 2010 سے جاری ہے لیکن انصاف، شفافیت، قومی تحفظ، شہریوں کی خود کی اور ذاتی تحفظ کی فکر جس میں ذاتی ڈیٹا کی حفاظت جیسے مسائل کا ازالہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ان ایشوز پر حکومت کا موقف تسلی بخش رہا ہے۔ حکومت ہند کا سپریم کورٹ میں یہ اعلان کہ ہندوستانی شہری کو ذاتیات کا کوئی بنیادی حق حاصل نہیں ہے۔ یہ پہلو خاص طور سے پریشان کن ہے۔ ایک سطح پر یونیک آڈینٹی فیکیشن، آئی ڈی پروجیکٹ میں بیرونی ایجنسیوں کی شمولیت سے بھی حالات کے سدھارنے میں کوئی مدد نہیں ملی ہے اور ذاتی ڈیٹا (اعدادوشمار) یا قومی تحفظ کو بچائے رکھنے کے لیے ابھی تک کوئی بھروسہ مند یا مستقبل میں بھروسہ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
سپریم کورٹ اپنے احکامات میں حکومت کو یہ بتاتی رہی ہے کہ مخصوص خدمات، فوائد اور دوسرے حصول کے لیے آدھار کو لازمی نہ قرار دیا جائے لیکن پھر بھی مرکز اور صوبے سپریم کورٹ کے احکامات کے بجائے اسکول میں داخلے، بچوں کے لیے دوپہر کا کھانہ، اسپتال کی سہولیات، صحت سے جڑی سہولیات اور مختلف شعبوں میں سہولیات کو لیکر آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان اشخاص (غریب، کمزور اور ایسے لوگ جن کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے) کے معاملوں میں توہین عدالت کا معاملہ بن جاتا اور اس پر کارروائی چل رہی ہوتی۔ مرکزی حکومت نے پانچ رکنی سپریم کورٹ کی آئینی بنچ اور چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں بنائی گئی ایک دوسری چھوٹی بنچ میں آپسی اختلافات کا واضح طور پر فائدہ اٹھایا ہے۔ پچھلے ہفتہ ملک کے سب سے بڑے قانونی افسر اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے سپریم کورٹ کے ججوں کی ایک بنچ کو بتایا تھا کہ عدالت کے ججوں کی خود کی رائے میں اختلاف ہے۔
سپریم کورٹ کا موجودہ موقف یہ ہے کہ سہولیات اور دوسرے فوائد کے لیے آدھار لازمی نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام سہولیات اور فوائد کی حصولیابی کے لیے اسے پہلے ہی لازمی قرار کیا جا چکا ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق تمام سہولیات کو حاصل کرنے کے لیے حکومت نے اب تک 91 نوٹیفکیشن جاری کیے ہیں جن کے ذریعہ عوامی نظام تقسیم کار، پنشن اور منریگا جیسی سہولیات کو شامل کرتے ہوئے نیز دیگر تمام سرکاری اسکیموں کے تحت سہولیات حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود آدھار کو لازمی کیا گیا ہے۔ عدلیہ کے پاس حکومت کے اس ’’شیطان ہی مدد کرے جیسے رویہ کا کوئی جواب نہیں ہے‘‘۔
غیربرابری کے مواقع
انصاف اور شفافیت کے لیے ایسے تمام ضروری مسائل ہیں جن کا ازالہ عدلیہ، مرکز اور صوبوں کے ذریعہ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ تمام بنیادی سہولیات جیسے اسپتال، اسکول، کالجوں میں داخلے اور ملازمتیں لوگوں کو اس بنیاد پر دینے سے منع کر دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس لازمی قرار دیا گیا آدھار کارڈ نہیں ہے، لیکن اصلیت یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی سہولیات آدھار نہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے محروم رہنا پڑتا ہے کیونکہ یونیک آڈینٹی فیکیشن پروجیکٹ میں پنہاں پیچیدہ ٹکنالوجی کی وجہ سے ہے جواب فائدہ پہنچانے سے قاصر ہے۔
آدھار کے لیے جن لوگوں کو شامل کیا گیا ہے اس میں سے 10 فیصد ایسے ہیں جنہیں اس کا فائدہ لیے نہیں مل رہا ہے کیونکہ ان کی ہتھیلی کے نشان کو مشین ٹھیک سے نہیں پڑھ پاتی اور ان کی آنکھوں کی پتلیوں کی تصویر ٹھیک سے نہیں لی جاسکی۔ 5 سال سے کم عمر کے بچوں (ان کے لیے آدھار کارڈ لازمی نہیں) کی ہتھیلیوں کی لکیریں، ضرورت کے مطابق نہیں ابھری ہیں اور ہاتھ سے کام کرنے والے لوگوں کی لکیریں ان کے کام کی وجہ سے ہلکی پڑ جاتی ہیں۔
ضعیف لوگوں کی لکیریں سال درسال بدلتی رہتی ہیں ان کی شناخت نہیں کی جا سکتی۔ آدھار پروجیکٹ میں خراب ٹکنالوجی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی چھاپ نہ ٹھیک سے لی جا سکتی ہے اور نہ ہی ایسے لوگوں کی پتلیاں جن میں موتیابند یا پتلی کو پہنچے نقصان کی وجہ سے ان کی ٹھیک سے فوٹو گرافی کی جا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کو آدھار جاری نہیں کیا جا سکتا۔
اس طرح کے لوگوں (جن کی تعداد کروڑوں میں ہو گی) کو آدھار سے اس لیے محروم رکھا جاتا ہے کیونکہ پروجیکٹ میں ضروری سامان نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بنیادی سہولیات کے فوائد سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ یہ ایک واضح مثال ہے کہ شہریوں کو حکومت کی ناکامیوں کی وجہ سے سزا دی جارہی ہے۔ شہریوں کو اس خسارے کی نہ تو بھرپائی کی جاتی ہے اور نہ تو سرکار ان سے معافی ہی مانگتی ہے۔ اس طرح شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو خاموشی سے یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اس نظام کی ناکامی کے اور بھی اسباب ہیں، ہتھیلیوں کی لکیریں ہمیشہ لوگوں کے مرنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور ایک عرصہ میں آنکھوں کی بیماریوں کی وجہ سے پتلیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ جب اس طرح کے لوگ آج جاری کیے گئے آدھار کارڈ جس میں ان کا بائیومیٹرک ڈیٹا موجود ہے کے ساتھ مراعات حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں تو ان کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے، کیونکہ آج کا ڈیٹا پچھلے ڈیٹا سے میل نہیں کھاتا۔ آج کی تاریخ میں تقریباً 30 فیصد لوگ سستے غلے کی دکانوں میں راشن اس لیے نہیں لے سکے، کیونکہ اس طرح کی کمیوں سے انہیں دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر تقریباً 85 لاکھ آدھار کارڈ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہونے کے علاوہ آدھار کو تمام ایسی سہولیات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن سے نہ ختم ہونے والا ڈیٹا اکٹھا ہو جاتا ہے جسے متعلقہ لوگوں کی اجازت کے بغیر ہوشیار کاروباریوں کے ذریعہ غلط ڈھنگ سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ڈیٹا (بایومیٹرک اور ڈیموگرافک) کو ظالم حکومت اپنے فائدے کے لیے بھی استعمال کر سکتی ہے۔ نریندرمودی کے دور حکومت میں گجرات میں مسلمانوں سے متعلق ڈیٹا میں گڑبڑیوں کی شکایتیں دکھائی پڑتی تھیں۔
آدھار کو منسوخ کریئے
ترقی یافتہ جمہوریتوں میں ایک قومی ڈیٹا بیس تیار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بالآخر اس کے برے اثرات کے ڈر کی وجہ سے اس پروجیکٹ کو آخر منسوخ کرنا پڑا۔ امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے اپنے اس پروجیکٹ کو منسوخ ہی نہیں بلکہ پورا ڈیٹا کو تباہ کر دیا۔ برطانیہ کے وزیر داخلہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس پروجیکٹ کو اس لیے مؤخر کر دیا کیونکہ اس سے حکومت کی پریشان کرنے کی منشا ظاہر ہوئی تھی جبکہ حکومت کی واقعی منشا ان کے غلام کی ہے نہ کہ ان کے مالک کی۔ اس طرح سے فلپائن سپریم کورٹ میں صدر کے ایگنزیکٹیو آرڈر (A.O.308) جسے بعد میں بائیومیٹرک قومی آئی ڈی بنائی گئی تھی، اسے منسوخ کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے یہ کہا تھا کہ یہ حکمرانی کانگریس کی قانون ساز طاقت کے اوپر حکومت کی حکمرانی کرنے کے مترادف ہے جو ذاتی آزادی پر حملہ ہے۔
کمپیوٹر، اسمارٹ فون، نیٹ گریڈ اور اس کے استعمال کے تمام شعبوں کے ساتھ آدھار انفرادی شہریوں کے بارے میں اتنا زیادہ ڈیٹا مرتب کرنے جا رہا ہے کہ ان کے پاس اپنی ذاتی انفرادیت ہی باقی نہیں رہے گی۔ یہ ٹھیک اسی طرح ہے جیسے کسی کو چوراہے پر برہنہ کھڑے ہونے پر مجبور ہونا پڑے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ امریکی صدر رچرڈ نکسن کو وہائٹ ہاؤس سے ان کے عہدہ سے بے عزت کرکے اس لیے ہٹایا اور نکالا گیا کیونکہ ان کے ہی لوگوں نے ان کے حریف کے صدارتی انتخاب میں واٹرگیٹ میں واقع ان ہی کے دفتر سے طبی ریکارڈ چوری کیا گیا تھا۔
نکسن نے اپنے انتخابی مہم کے دوران عوام کو اسی میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر یہ بتایا تھا کہ ایک شخص جس کی صحت غیریقینی ہے وہ امریکا کی صدارت کے لیے قطعی موزوں نہیں ہے۔ امریکا کی تاریخ میں واٹرگیٹ گھوٹالہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج بلاشبہ اس شخص کو جس کا ڈیٹا چوری کیا جا سکتا ہے اسے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مرکز نے سپریم کورٹ میں پہلے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہندوستانیوں کو اپنی ذاتی انفرادیت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اس لیے ہم اس کی شکایت بھی نہیں کر سکتے۔ اس سے پہلے کہ خطرات ابھر کر سامنے آجائیں یہ بہتر ہے کہ یو آئی ڈی پروجیکٹ کو فی الفور واپس لیا جائے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home