’اچھے دن‘ کا وعدہ او رمودی حکومت
ڈاکٹر محمد منظور عالم
مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے 6ماہ پورے ہوگئے ہیں۔ ان چھ ماہ لے کر جس طرح الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ حکومت کی کامیابی کو بڑھاچڑھاکر پیش کیا جارہا ہے۔ وہ ترقی صر ف کچھ لوگوں تک محدود ہے۔ جس ’اچھے دن‘ آنے کا نعرہ دیا گیا وہ صرف اور صرف کارپوریٹ سیکٹر کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے اور عام آدمی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ وہ آج بھی اچھے دن کے احساس سے دور ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ نعرہ کا ہے۔ ساتھ سب کا لینے کی بات کی جاتی ہے لیکن وکاس مخصوص گروہ کا ہی ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے اگر حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا ایک جائزہ لیا جائے تو جو صورتحال سامنے آتی ہے۔ وہ نہ صرف کافی چونکانے والی ہے بلکہ اس کی کتھنی اور کرنی کوبھی اجاگر کرتی ہے۔
یہ بات بڑی اہم ہے کہ ایک طرف تو عالمی منڈی میں کچے تیل کی قیمتوں میں لگاتار گراوٹ درج کی جارہی ہے تو دوسری جانب ملک میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کے دام لگاتار بڑھ رہے ہیں اور عام آدمی کو مہنگائی سے راحت ملتی نظر نہیں آرہی ہے۔ ملک پر قرض کا بوجھ مستقل بڑھتا جارہا ہے۔ این ایس ایس او کے تازہ اعداد وشمار کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں ایک تہائی اور شہری علاقوں میں ایک چوتھائی لوگ قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سروے کے مطابق شہری علاقوں میں فی کنبہ یہ قرض 84,625روپے اور دیہی علاقوں میں فی کنبہ 32,522روپے ہے۔ملک کے کسان بھی کھیتی باڑی کے ذریعہ اپنی زندگی گزارنے اور روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ملک کے 96فیصد کسانوں کی زراعت سے اتنی آمدنی نہیں ہے کہ وہ اس سے اپنے خاندان کی گزر بسرکرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسان اپنے پیشہ کو چھوڑ رہے ہیں کیونکہ ان میں مایوسی کی کیفیت پائی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے ودربھ میں 12کسانوں کے ذریعہ کی گئی خود کشی کو اسی ضمن میں دیکھا جارہاہے۔ عیاں رہے کہ اسی سال 10اکتوبر کو امراؤتی ضلع میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندرمودی نے کسانوں کی بات کی تھی لیکن دوماہ سے کچھ زائد عرصہ میں 12کسانوں کی خودکشی ’اچھے دنوں‘ کے برخلاف صورتحال کو پیش کرتی ہے۔
جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن موجودہ بی جے پی حکومت اس پارلیمانی نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ صدارتی نظام کو لانا چاہتی ہے جس میں صدر ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ اجلاس ختم ہونے کے ایک دن بعد جس طرح مرکزی حکومت نے بیمہ قانون، کوئلہ بلاک اور آراضی تحویل کے لیے آرڈی نینس جاری کیا۔ اس سے مذکورہ خدشہ کو تقویت ملتی ہے او ریہ سب اس طرف بڑھ رہا ہے جس میں برہمنوں کی بالادستی ہوگی۔ اس آرڈی نینس سے فائدہ صرف اور صرف کارپوریٹ سیکٹر کو ہوگا کیونکہ آراضی تحویل ودیگر آرڈی نینس عوامی مفاد کے خلاف ہیں اور پارلیمنٹ میں حزب مخالف پارٹیوں کی مخالفت کے سبب انھیں پاس کرانا مشکل تھا اس لیے آرڈی نینس کے راستہ کو اختیار کیا گیا۔ 6ماہ کے عرصہ میں اس طرح کے آرڈی نینس کی تعداد 9ہے، جو کہ پارلیمانی نظام کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
ایک خاص فکر کے تحت بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈ سے کو آگے بڑھایا جارہا ہے اس کے نام سے مندر بنایا جارہا ہے، اس کی پذیرائی کی جارہی ہے۔ ایسا اس لیے کیا جارہا ہے کہ گاندھی بنیا تھے اور گوڈ سے برہمن تھا۔ یہ در اصل منواسمرتی کی اس سوچ کے تحت کیا جارہا ہے جس میں برہمنوں کی بالادستی قائم رہے۔ اسی طرح 6دسمبر کو جب بابری مسجد شہید کی گئی تو مسلمانوں نے ’یوم سیاہ‘ منایا۔ اس دن ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر کی یوم پیدائش ہے لیکن ان کی پیدائش کی خوشی نہ مناکر بابری مسجد شہید کرنے کی خوشی میں شوریہ دوس (فتح کا دن) مناکر مسلمانوں اور دلتوں کو نیچا دکھاکر ان کی دلآزاری کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نے تقریر کرتے ہوئے یوگا کے لیے عالمی دن کا تعین کرنے کے لیے 22فروری کی تاریخ طے کی تھی۔ 22فروری کی یہ وہ تاریخ ہے جب گجرات گودھرا اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس کی S-6بوگی میں لگی آگ کے بعد ریاست میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ جس طرح سے یہ فسادات ہوئے اس کی بنیاد پر یہ کہا جارہا تھا کہ اس میں ریاستی حکومت ملوث ہے۔ اس فساد میں تقریباً ایک ہزار مسلمان مارے گئے جبکہ کئی ہزارے بے گھر ہوئے اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا۔ فساد متاثرین کے لیے جب این ڈی اے کی پہلی حکومت کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی نے ریلیف کے لیے رقم بھیجی تو گجرات کے وزیر اعلی نریندرمودی نے اسے یہ کہہ کر واپس کردی کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس دن کو بطور ’یوگا دِوس‘ منانا مسلمانوں کے جلے پر نمک چھڑکنے جیسا ہے۔ مودی حکومت نے 25دسمبرکو گڈگورننس ڈے کے طور پر منانے کی بات کی ہے، ابھی حکومت کی تشکیل کے 6ماہ ہی ہوئے ہیں۔ گڈ گورننس کا معاملہ تو ایک سال کی کارکردگی پر محیط ہوتا ہے۔ جبکہ یہ عیسائیوں کے لیے مبارک دن ہے اور 6ماہ میں گڈ گورننس کے لیے اس دن کا نتخاب در اصل عیسائیوں کو چڑھانے کے لیے ہے۔
آر ایس ایس نے سبرامنین سوامی کے ذریعہ یہ کہلوادیا کہ راون ایک دلت تھا۔ راون ایک ایسا کردار ہے جس نے سیتا کو اغوا کیا تھا۔ سیتا اونچی ذات سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اونچی ذات کو خوش کرنے اور دلتوں کو نیچا دکھانے کے لیے راون کو بُرائی کی علامت بتاتے ہوئے دلتوں پر نشانہ سادھا ہے۔ اس سے انھیں سبق لینا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ منواسمرتی کی تعلیمات کے عین مطابق ہورہا ہے جس کے تحت انسانوں کو مختلف ذاتوں کے خانوں میں تقسیم کرکے ان کو اونچ نیچ میں بانٹا گیا ہے۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے بڑے ہی طمطراق سے ماڈل گاؤں بنانے کی پہل کی۔ لیکن اس کے لیے ’حسین حربہ‘ یہ اختیار کیا گیا کہ وہ گاؤں گود لیے جائیں جہاں مسلم آبادی نہیں ہے یا برائے نام ہے۔ حکومت کی منشا ہے کہ پارلیمنت میں تمہاری نمائندگی نہیں کے برابر ہے، اس لیے مسلمان خاموش رہیں۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو نظر انداز کرکے نہ تو ملک کی ترقی ممکن ہے اور نہ ہی سماج آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس پورے منظر نامہ میں میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا کا رول کافی قابل اعتراض ہے۔ مودی ملک کی بات کرتے ہیں لیکن میڈیا کے کیمرے مودی کو بی جے پی ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ میڈیا آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ اور ’پانچ جنیہ‘ کے طور پر کام کررہا ہے جو کہ منواسمرتی کے فلسفہ کو آگے بڑھانے کا کام کررہا ہے۔ منواسمرتی کی پیروی آر ایس ایس گرو گولواکر نے کی تھی۔ یہ ملک کے اس دستوری اور جمہوری نظام کے خلاف ہے جس میں سبھی شہریوں کو برابری کا حق دیا گیا ہے اور مذہب، نسل، عقیدہ، ذات کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نہیں کی گئی ہے۔ منواسمرتی میں اس کے برخلاف ذات پات پر مبنی نظام کی وکالت کی گئی ہے۔
مودی حکومت کی 6ماہ کی کارکردگی میں اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے بلکہ جو مراعات انھیں پہلے سے حاصل تھیں وہ ختم کی جارہی ہیں۔ جیسے سستی دواؤں کو مہنگا کیا جارہا ہے۔ فارم سیکٹر جس میں کیمیاوی کھاد وغیرہ شامل ہے سے سبسڈی ختم کی جارہی ہے اس سے عام آدمی کو جو فائدہ ہورہا تھا وہ ختم ہورہا ہے اور ان صنعتی گھرانوں کو اس کا فائدہ ہورہا ہے جنھوں نے ان کے الیکشن میں اپنی تجوریاں کھولی تھیں۔ بہرحال اب یہاں کے عوام کو یہ طے کرناہے کہ منواسمرتی جو کہ یہاں کے سماجی تانے بانے کو توڑ نے والا فلسفہ ہے سے کس طرح ملک کو محفوظ رکھنا ہے۔ کیونکہ جس طرح بی جے پی بڑھ رہی ہے اگر وہ ملک کے دوتہائی صوبوں میں قابض ہوجاتی ہے تو اس سے یہ خدشہ ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کردے، پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے لیے دوتہائی صوبوں کی اجازت بھی ضروری ہے۔
(مضمونگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home