اکھلیش حکومت کے تین سال اور مسلمان
ڈاکٹر محمد منظور عالم
15مارچ 2015کو اترپردیش کی اکھلیش یادو حکومت نے اپنے تین سال پورے کر لیے ہیں۔ ان کی حکومت کی کارکردگی کو بالخصوص صوبے کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے مفاد، ان کے تحفظ اور ان میں اعتماد بحال کرنے کے ضمن میں دیکھا جائے تو کوئی ایسا قابل ذکر کارنامہ نظر نہیں آتا ہے جس پر مسلمان کوئی مثبت رائے قائم کر سکے، حتی کہ 2012میں اترپردیش کے ریاستی انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے اپنے منشور میں مسلمانوں سے متعلق جو وعدے کئے تھے ان پر بھی کوئی کام نہیں ہوا۔ اپنی تین سالہ کارکردگی کو ریاستی حکومت نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعہ نمایاں کیا ہے اس میں اقلیتوں سے متعلق جو ایشوز اٹھائے گئے ہیں ان کی بھی جانکاری آدھی ادھوری دی گئی ہے جس سے یہ بات واضح نہیں ہو رہی ہے کہ اس ضمن میں کیا پیش رفت ہوئی۔
2012کے ریاستی انتخابات میں مسلمانوں نے کھل کر سماج وادی پارٹی کی حمایت کی تھی۔ انہیں یہ بھروسہ تھا کہ سماج وادی پارٹی، ان کی عزت، آبرو اور تحفظ پر پوری توجہ دے گی، نیز فرقہ پرستوں سے سختی سے نمٹے گی جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا لیکن اس کے برعکس سوا سال بعد ہی منظفر نگر میں 2002میں ہوئے گجرات فسادات سے بھی بدتر فساد ہوئے اور مسلمانوں کو فرقہ پرستوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ان علاقوں کا دورہ نہ تو کسی سینئر وزراء نے کیا اور نہ خود وزیر اعلی کو وہاں جانے کا وقت ملا۔ المیہ تو یہ ہے کہ مظفر نگر فسادات کے جو ملزمین ہیں انہیں سزا نہیں ملی اور وہ آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ فساد متاثرین نے جب سرکاری زمین پر بنے کیمپوں میں پناہ گزیں ہوئے تو مرکزی حکومت کے محکمہ جنگلات نے انہیں زبردستی وہاں سے بے دخل کیا اور سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کے جرم میں ان پر مقدمہ قائم کر دیا گیا اور ریاستی حکومت نے ان پناہ گزین کے لیے کوئی متبادل فراہم نہیں کیا۔ مظفر نگر فساد کی انکوائری کے لیے ریاستی حکومت نے جسٹس گیان پرکاش کی قیادت میں ایک رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اس نے اپنی درمیانی رپورٹ حکومت کو سونپ دی لیکن اس کی روشنی میں حکومت نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس فساد میں تقریباً 60سے زائد لوگ مارے گئے اور 50ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے جبکہ اربوں روپے کی املاک جس میں زمین، فصل اور مویشی اور ان کے گھر بھی شامل ہیں، کا نقصان ہوا۔ بے گھر ہوئے لوگ آج بھی آبائی مقام کو واپس لوٹنے کو تیار نہیں ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی مؤثر اقدام بھی نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج بھی فساد متاثرین بے یارومددگار مختلف تنظیموں کے تعاون سے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ فسادات کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ کوسی کلاں، پڑتاپ گڑھ، سہارنپور اور صوبے کے دیگر مقامات پر بھی پھیل گیا، وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کے مطابق سماج وادی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے فرقہ وارانہ فسادات کے چار درجن سے زائد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان میں ایسے واقعات بھی شامل ہیں جہاں مسلمانوں کو مدرسہ میں پڑھنے پڑھانے سے روکا گیا۔
حکومت نے اپنے اشتہار میں اقلیتوں سے متعلق جن 7نکات کا ذکر کیا ہے اس میں مظفر نگر فساد متاثرین کی بازآبادکاری کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے ک اس سمت میں حکومت کی جانب سے کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے۔ جن دیگر نکات کا ذکر کیا گیا ہے (۱) ان میں قبرستان کی چہار دیواری کی تعمیر کو ایک کام بتایا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اب کتنے قبرستان اور کن اضلاع میں چہار دیواری کا کام کتنا کیا گیا اور اس کے لیے کتنی رقم مختص کی گئی اور اس میں کتنی خرچ کی گئی۔ (۲) وقف جائدادوں کی حفاظت کے لیے الگ بنانا۔ یہ قانون کس مرحلے میں ہے اور کب تک اس کا نفاذ ہو گا، کی کوئی تفصیل اس میں نہیں دی گئی ہے۔ (۳) ہتھ کرگھوں کے بقایہ بجلی بل، سود اور جرمانہ وغیرہ معاف، اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس پیشے سے وابستہ کتنے افراد کے بجلی بل معاف کیے گئے اور وہ رقم کتنی ہے۔ (۴) طالبات کی تعلیم اور شادی کے واسطے 30ہزار کی امداد۔ ریاست میں یہ اسکیم عمومی ہے اور پسماندہ طبقہ کی طالبہ اس کی مستحق ہے لیکن اس کے باوجود اسے اقلیتوں سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کتنی مسلم طالبات اس اسکیم سے مستفید ہوئیں۔ (۵) تعلیمی اداروں کو یونیورسٹی کا درجہ یئے جانے کی اسکیم۔ یہ اسکیم کب شروع ہو گی اور کن تعلیمی اداروں کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا، پر کوئی معلومات نہیں ہے۔ (۶) محمد علی جوہر یونیورسٹی میں میڈیکل کالج اور جدید تعلیم کے نظم کو صوبائی حکومت نے اپنی کارکردگی کے طور پر دکھایا ہے، پرائیوٹ یونیورسٹی کو حکومت نے جس طرح اپنی کارکردگی بتایا ہے وہ بہت سے سوالوں کو پیدا کرتی ہے اور (۷) سبھی ترقیاتی اسکیموں کا 20فیصد حصہ اقلیتوں کے لیے۔ اس تعلق سے بھی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ حکومت کی جانب سے کتنی ترقیاتی اسکیموں میں اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو کتنا حصہ دیا گیا۔
سماج وادی پارٹی نے اپنے منشور میں مسلمانوں کو 18فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مسلمانوں کو توقع تھی کہ پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد اس پر عمل کرے گی لیکن حیرت انگیز طور پر پارٹی نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اب تو اس کے ایک سینئر وزیر نے یہ کہہ کہ معاملہ ختم کر دیا کہ سماج وادی پارٹی حکومت نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ اس سے مسلمانوں میں کافی بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ سماج وادی پارٹی نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ جیلوں میں بند بے قصور مسلمانوں کو جلد از جلد رہا کیا جائے گا اور اس کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا لیکن اس میں بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہے۔ اس معاملے میں حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس پیروی نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں ریاستی حکومت کی عرضی کو عدالتوں نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ مرکزی قانون کے تحت آتے ہیں اس لیے انہیں مرکز سے رابطہ کرکے اجازت لینی ہو گی۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ حکومت کے محکمہ قانون کو کیا یہ نہیں معلوم تھا کہ اس معاملے میں کیا پہل کرنی چاہیے۔ سماج وادی پارٹی کے نمائندے برابر اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے دور میں دہشت گردی کے نام پر کوئی گرفتاری نہیں ہوئی جبکہ رہائی منچ اور دیگر تنظیمں اس کو مسترد کرتی ہیں۔ رہائی منچ کا دعوی ہے کہ ’’اس حکومت کے قائم ہوتے ہی 2012میں سیتاپور سے بشیر، اعظم گڑھ کے ایک مدرسے کے طالب علم سجاد بھٹ اور وسیم بھٹ کی گرفتاری سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ 2014کے لوک سبھا انتخابات اور پوری ضمنی انتخابات کے درمیان اتنا بڑھ گیا کہ مرزاپور، فتح پور، میرٹھ، بجنور، سہارنپور سے مسلسل گرفتاریاں ہوتی رہیں اور صوبائی حکومت خاموش رہی۔ اسی طرح لکھنؤ کی جس جیل سے لاتے لے جاتے وقت خالد مجاہد کی مشتبہ موت ہوئی اب اسی جیل میں حکام مبینہ طور پر کرائے کے غنڈوں کا سہارا لیکر طارق قاسمی کے قتل کی سازش رچ رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے‘‘۔
تین سال کے جائزے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا ہے، جس سے یہ مانا جائے کہ موجودہ اکھلیش حکومت مسلمانوں کے ساتھ انصاف سے کام کر رہی ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی ایسا عمل سامنے آیا ہے جس سے یہ واضح ہو سکے کہ وہ فرقہ پرستوں کی سرکوبی کر رہی ہے اور اشتعال انگیزی کرنے والوں پر کوئی گرفت کر رہی ہے جس کی وجہ سے صوبے کا فرقہ وارانہ ماحول خراب ہو رہا ہے اور فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن بچوں کو خوراک اور دودھ کی ضرورت ہے وہاں اسے جھنجھنا دیکر بہلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ کتھنی اور کرنی کے فرق کے نتیجہ میں ہی ایک مخصوص فکر کے لوگوں کو اقتدار پر قابض ہونے کا موقع مل گیا۔ اترپردیش کے ریاستی انتخابات میں دو سال کا عرصہ باقی ہے اور عبرت کی نگاہ رکھتے ہوئے اپنے منشور کو عملی شکل دیں تاکہ یوپی کے عوام بالعموم اور مسلمان بالخصوص کو اعتماد ہو سکے کہ جو کچھ کہا ہے اس کی تنفیذ کی جا رہی ہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home