امت شاہ کے ذریعہ ’دہلی سے گلی‘ تک پہونچنے کا منصوبہ
ڈاکٹر محمد منظور عالم
مرکز کی نریندرمودی حکومت جیسے جیسے اپنے دن مکمل کرتی جارہی ہے اس کی شکل وصورت صاف اور واضح ہوتی جارہی ہے۔ پہلے جہاں بہت سے ایشوز کو لیکر ابہام کی کیفیت پائی جارہی تھی۔ ایک ماہ کی حکمرانی کے دوران وہ ابہام نہ صرف دور ہوگئے بلکہ جو چیزیں سامنے آرہی ہیں اس سے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے جس کا اظہار اس سے قبل کے مضامین میں کیا جاچکا ہے۔ یہ وہ خدشات ہیں جو بحیثیت ایک مسلم ہونے کے ناطے عام مسلمانوں کو درپیش ہیں گو کہ آئین ہند نے ان کے حقوق کے تحفظ کی آئینی ذمہ داری دی ہے لیکن مرکز کی حکومت جو کہ فکری بنیادوں پر کام کررہی ہے کے دور اقتدار میں ان حقوق واختیارات کے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ان حالات میں حقائق سے باخبر رہنا اور آئین ہند کو تحفظ فراہم کرانا ہم سب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی ایک سیاسی پارٹی ہونے کے ساتھ آر ایس ایس کی فکر سے وابستہ ہے۔ اس کی یہ فکر ہندستانی آئین میں درج دیباچہ اور سیکولرازم کے فلسفہ کے برعکس ہے اسی لیے یہ تشویشناک ہے جس پر عام شہریوں کا بے چین ہونا فطری ہے۔ گزشتہ دنوں بی جے پی نے امت شاہ کو پارٹی کا صدر بنایا ہے۔ پارٹی کسے صدر بناتی ہے اور کسے نہیں یہ اس کا اپنا معاملہ ہے لیکن امت شاہ کا نام ایسا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اوراس کی وجہ گجرات کے مشہور عشرت جہاں انکاؤنٹر میں ان کے خلاف معاملہ عدالت میں ہے۔ امت شاہ سہراب الدین اور کوثر بی جعلی انکاؤنٹر میں تین ماہ جیل کی ہوا کھا چکے ہیں ان پر مجرمانہ سازش، قتل، اغوا، اور شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جیسے سنگین الزام عائد گیے گئے ۔ سپریم کورٹ نے ان کا گجرات میں داخلہ ممنوع قرار دیا تھا۔ پر جاپتی انکاؤنٹر معاملے میں ناکافی شواہد کی بنا پر انھیں کلین چٹ ملی، الیکشن سے قبل ایک خاتون کی جاسوسی کے جس معاملے نے سراٹھایا امت شاہ اس کا بھی اہم کردار تھا۔ اس کے علاوہ بھی وہ دیگر معاملوں میں ماخوذ ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ان کا صدر بنایا جانا قانون سے کھلا مذاق ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل پارٹی نے انھیں انتخابی ذمہ داری دی اور موصوف نے جس خوبی سے سماج کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ آج پارٹی اقتدار میں ہے۔ ایسے شخص کو پارٹی نے پوری کمان دے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امت شاہ کا جو ماضی رہا ہے اور ان کے جو کارنانے سامنے آئے ہیں کیا ان کے دور صدارت میں اس سے ہٹ کر کوئی کام ہوسکے گا یا پھر اسی مشن کو آگے بڑھاجائے گا۔ حالات اور واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے کارناموں کو مزید جلا ملے گی۔ ایسی صورت میں پورے ملک بالخصوص ریاست اترپردیش اور بہار میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے جہاں آنے والے مہینوں میں ریاستی انتخابات ہونے ہیں، کا اندازہ لوک سبھا انتخابات میں ان کے رول کی بنیاد پر لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ ان ریاستوں میں ابھی سے انتخابات کو لیکر فرقہ وارانہ ماحول بنایاجارہا ہے۔ رام پور میں بی جے پی کے ریاستی صدر لکشمی کانت باجپئی نے مقامی انتظامیہ کی جانب سے مہاپنچایت نہیں ہونے دینے پر جس طرح انتظامی مشنری کے آفیسروں ایس ایس پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ ایس ایس پی کو ناگن کی طرح اپنی آنکھوں میں اتارلیا ہے اور بی جے پی ایس ایس پی سے اس کا بدلہ لے کر رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے پر آفیسروں کو نشانہ بنایاجائے گا جب کہ انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ امن وامان قائم رہے اور صورتحال کنٹرول میں رہے لیکن پارٹی سے جڑے کارکن اپنی اس سوچ کو ظاہر کررہے ہیں جو ان کی پارٹی کا خفیہ ایجنڈہ ہے، جس پر کھلے عام کہا جارہا ہے کہ بی جے پی اب ناگن پارٹی ہوگئی اگر یہ صحیح ہے جس کا اظہار اس پارٹی کے ذمہ دار خود کررہے ہیں تو یہ انسانوں کے لیے کیسے مفید ہوسکتی ہے؟ تصویر کا دوسر اپہلو یہ ہے کہ یہ قانون کو اپنے پیروں تلے روند رہی ہے اور اسے اس کی پا مالی پر کوئی افسوس نہیں ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت اس واقعہ پر پوری طرح خاموش ہے۔ اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جو پارٹی اس ملک کے دستور اور قانون کو نہیں مانتی وہ ان کا تحفظ کیسے اور کیونکہ کرے گی؟
اسی درمیان وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا اور اشوک سنگھل نے کھلے طور پر مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ گجرات بھول گئے لیکن مظفر نگر تو یاد ہوگا۔ یہ بات توگڑیا نے اندور میں ایک پریس کانفرنس میں کہی۔ اس سے قبل اشوک سنگھل نے مسلمانوں کو بالواسطہ دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اقلیتی برادری ہندوؤں کے جذبات کا حترام کرنا سیکھے ورنہ وہ زیادہ دن تک وجو د میں نہیں رہ پائے گی۔ توگڑیا اور سنگھل کی اس کھلے عام دھمکی کے باوجود انتظامیہ خاموش ہے اس پس منظر میں اگر ان کڑیوں کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے تو یہ آپس میں مربوط نظر آتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ عناصر پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے تھے اور حکومت اس پر خاموش رہتی تھی لیکن مودی حکومت میں ان کی زہر افشانی اس لیے تشویشناک ہے کہ خود پارٹی صدر بھی اسی سوچ اور فکر کا علمبردار ہے اور اس نے اس کا اظہار گجرات سے لیکرلوک سبھا انتخابات تک مختلف مواقع پر کیا ہے جبکہ حکومت کامکھیا بھی اس گناہ میں شامل ہے جس کی حکومت میں گجرات کے مسلمانوں کی نسلی تطہیر ہوئی اور جب کیمپوں میں رہ رہے فساد متاثرین کے لیے مرکز سے امداد آئی تو اسے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ یہاں کیمپوں میں کوئی نہیں ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ان کی امیج خراب نہ ہو۔ ان کے دور حکومت میں ریاست کے مسلمانوں کو انصاف نہیں ملا الٹے مختلف الزامات کے تحت انھیں جیل میں ڈالا گیا۔
بنیادی مسئلہ اس فکر کا ہے جس کی آبیاری آر ایس ایس کرتی ہے۔ اس فکر میں کسی دیگر اقلیتی طبقہ کے وجود کو برداشت نہیں کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں امت شاہ کو پارٹی صدر بناکر آگے بڑھانے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ ہر جگہ آر ایس ایس کی فکر کو پہونچایا جائے۔ ماضی میں جس طرح سرسنچالک گرو گوالکر نے نعرہ دیا تھا ’’گلی سے دہلی تک‘‘ اسی طرز پر سنگھ پریوار نے منصوبہ بنایا ہے کہ ’’دہلی سے گلی تک‘‘ کیونکہ وہ یہ مان رہا ہے کہ دہلی کے اقتدار تک وہ پہونچ گیا ہے اب ملک بھر میں اسے پہونچانا ہے۔ اسی لیے امت شاہ کو آگے لایا گیا ہے۔ آر ایس ایس یہ مان کر چل رہا ہے کہ اسے ملک گیر سطح پر عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان متنازعہ ایشوز کو اٹھائے تاکہ ایک طبقہ کے عقیدے و جذبات کو ایشو بناکر سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کیا جاسکے۔ امت شاہ کو بی جے پی کی قیادت سونپنا اور دیگر فرقہ پرست لیڈروں کے ذریعہ اقلیتی طبقات کو کھلے عام دھمکی دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان حالات میں امتحان تو دراصل یہاں کے انصاف پسند ہندوؤں اور سیکولر سیاسی پارٹیوں کاہے کہ ملک کے تانے بانے کوکیسے مضبوط رکھا جائے اور اس کی لپیٹ میں آنے والے مسلمانوں کا بھی ہے کہ وہ کس طرح ان کی شرپسندی اور فرقہ پرستی کو روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور سانپ بھی مرجائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق اپنی مومنانہ فراست کا ثبوت دیتے ہیں۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home