بی جے پی کی معافی اور 2014لوک سبھا انتخابات
ڈاکٹر محمد منظور عالم

انتخابات کے زمانے میں جس طرح سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ سماج کے سبھی طبقات اور ذات برادری تک پہونچنے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں بعض لیڈروں کی جانب سے 2002 کے گجرات سانحہ کو بھول کر آگے بڑھنے کا مشورہ دیاجاتا ہے تو خود بی جے پی صدر اج ناتھ سنگھ کی مسلمانوں سے معافی مانگنے کی بازگشت سنائی پڑتی ہے۔ معافی ایک اچھا عمل ہے کیونکہ اس کا تعلق ندامت اور افسوس سے ہے یعنی اس کو اپنے اس عمل پر افسوس ہے جس کے ذریعہ کسی دوسرے کو نقصان پہونچایا پوری کمیونٹی اس سے متاثر ہوئی۔ معافی کا معاملہ اس کی نیت سے جڑا ہو اہے کہ اس نے یہ معافی خلوص نیت سے مانگی ہے یا محض ایک دکھاوا ہے۔ اس کا تجزیہ اس کے قول وفعل کی روشنی میں کرنا ضروری ہے۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ پورا معاملہ کسی ایک فرد سے نہیں بلکہ یوری ملت اسلامیہ سے جڑا ہوا ہے اور اس کے اثرات 2014کے لوک سبھا انتخابات پر بھی پڑیں گے۔ اس لئے اس خدشہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر ہم نے گہرائی سے اس معافی نامہ کا تجزیہ نہ کیا جائے اور انتخابی عمل میں اپنی سوجھ بوجھ اور دانشمندی کا ثبوت نہ دیا تو پھر ہم حالات کی گردش کا شکار ہوں گے جہاں ہمارے پاس اس وقت کوئی حکمت عملی یا منصوبہ نہیں ہوگا۔
مسلمان ایک داعی امت کی حیثیت سے ہمیشہ ہی باخبر رہتا ہے اور چیزوں کو اس کے اصل تناظر میں دیکھتا اور سمجھتا ہے اس لئے ہم کسی مایوسی کا شکار تو نہیں ہیں لیکن سازش کا شکار ضرور ہوجاتے ہیں۔ اسی سازش سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیزیں سامنے آرہی ہیں ان کو ان کے اصل پس منظر میں دیکھا جائے اور تب حالات کا تجزیہ کیا جائے۔ بات چاہے بابری مسجد کی شہادت کی ہو یا 2002 میں گجرات میں ہوئی نسلی تطہیر کی ہو۔ یہ دو واقعات ایسے ہیں جنھوں نے ہندوستانی تاریخ کی نہ صرف سمت بدلی ہے بلکہ پورا سیاسی منظر نامہ بھی بدل دیا ہے۔ اس لئے بی جے پی کی معافی ان واقعات کے پس منظر میں ہی دیکھی جانی چاہیے۔یہ وہ زخم ہیں جو مسلمانوں کے سینوں پر تقریباً 2دہائی قبل لگے ہیں لیکن اس کی ٹیس اسے آج بھی اسی طرح محسوس ہو رہی ہے ان واقعات پر بی جے پی قیادت نے کبھی ندامت یا شرمندگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اکثر وبیشتر فخر یہ انداز میں اپنی کامیابی کے طور پر اس عمل کو پیش کیا۔ لیکن اب جبکہ لوک سبھا الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوگیا ہے تو اس سے عین قبل بی جے پی صدر نے معافی مانگنے کی بات کرکے سمندر کی موجوں میں تلاطم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس معافی سے پہلا اور بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کو تقریباً ایک دہائی سے زائد عرصہ بعد اس معافی کو مانگنے کی ضرورت کیوں آپڑی؟ اگر وہ معافی نہیں مانگتی تو اس سے اس پر کیا فرق پڑتا جبکہ اس درمیان کئی لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات بھی ہوچکے ہیں لیکن 2014کے انتخابات سے پہلے معافی کا شگوفہ کیوں چھوڑا گیا؟ دوسری بات یہ ہے کہ معافی کس نے اور کس بات کے لئے مانگی۔ اخبارات کے مطابق بی جے پی صدر راج ناتھ سنگھ نے یہ معافی مانگی اور کہا کہ اگر انکے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہو تو وہ معافی مانگنے کے لئے تیار ہیں۔ گویا وہ ابھی بھی مان رہے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی ہے کیونکہ معافی کو جس طرح زیادتی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے اس سے یہی تاثر قائم ہوتا ہے۔اس معافی میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ کس زیادتی کی بات کررہے ہیں۔ بی جے پی کے دورِ اقتدار میں مسلمان کئی طرح کی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں۔ ان میں جہاں ان کی شناخت کو لیکر ان پر حملے کئے گئے وہاں مدارس اسلامیہ کو نشانہ بناتے ہوئے انھیں دہشت گردی کے اڈے سے تعبیر کیا گیا ۔دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ بابری مسجد کا واقعہ اور گجرات سانحہ اس کے علاوہ ہے۔ اس وضاحت کے بغیر معافی نامہ کو مسلمانوں سے ووٹ حاصل کرنے کے ضمن میں دیکھا جار ہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر پارٹیوں کی جانب سے اس طرح کے کسی عمل کو بی جے پی منھ بھرائی سے تعبیر کرتی ہے اور اس کی مخالفت کرتی ہے لیکن اب وہی پارٹی خود اس منھ بھرائی کے راستے پر چل رہی ہے۔ کیا یہ قول وفعل کے تضاد کو ظاہر نہیں کرتی ہے؟
بی جے پی کی اس معافی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پارٹی اب مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرے گی جس طرح کا دیگر سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔ یعنی پارٹی میں ان کی نمائندگی لوک سبھا امیدواروں میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے ٹکٹ دینا اور ان کی ترقی وفلاح سے متعلق اسکیموں کو اپنے منشور میں شامل کرنا اور جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ان اسکیموں سے مستفید کرناہے۔ گجرات جہاں وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے مرکزی حکومت کی اقلیتوں کے لئے دی جائے اسکالرشپ کو واپس کردیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے بھی مودی حکومت کی سرزنش کی تھی، وہاں شروع کی جائے گی تاکہ مسلمان بچے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ریاستی حکومت کے اس عمل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پارٹی کے ایجنڈے میں مسلمانوں کے فلاح وبہبود نہیں ہے اور اسی لئے وہ ان کے لیے اسکیمیں بنانا تو دور کی بات ہے مرکز کی جو اسکیمیں ہیں وہ بھی مسلمانوں تک نہیں پہونچنے دے رہی ہے۔ بی جے پی کے کچھ لیڈروں کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹ نہیں چاہیے۔ 2002میں جب اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے موقع پر آل انڈیا ملی کونسل نے دیگر سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر ریاست کی بی جے پی حکومت جس کی قیادت آج راج ناتھ سنگھ کر رہے تھے کے دور اقتدار کا جائزہ لیتے ہوئے ایک وہائٹ پیپر اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سمیت دیگر شہروں میں جاری کیا تھا تو بی جے پی بری طرح بوکھلا گئی تھی اور تب اس کے لیڈروں نے پریس کانفرنس کے ذریعہ جہاں ملی کونسل کو اصل خطرہ بتایا وہاں یہ بھی کہا کہ انھیں مسلم ووٹوں کی پرواہ نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال میں جس طرح نریندر مودی آگے بڑھ رہے ہیں اس سے بی جے پی کو لگ رہا ہے کہ اس کی جو پکڑ کمزور پڑ گئی تھی وہ اسے دوبارہ حاصل کرلے گی لیکن دشواری یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کی طرح اس کے پاس کوئی دوسرا مکھوٹہ نہیں ہے جسے وہ سامنے لاسکے۔ باجپئی اگر سیاسی منظرنامہ میں ہوتے تو شاید پارٹی کو اس معافی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ ان کے وزیر اعظم رہتے ہوئے گجرات کا سانحہ پیش آیا اور وہ اس بات کو دہراتے رہے کہ مودی کو راج دھرم کا پالن کرنا چاہیے اور میں باہر کیا منھ لیکر جاؤں گا۔ اس کے برعکس انھوں نے کوئی عملی اقدام نہیں کیا جس سے مسلمانوں کے زخموں پرمرہم لگتا۔ نہ تو انھوں نے مودی کو وزارت کی کرسی سے بے دخل کیا اور نہ ہی فساد متاثرین کی باز آبادکاری کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کیے۔ وہ ا پنے مکھوٹے کے سبب سیاست میں ہمیشہ موضوع بحث رہے جبکہ نریندرمودی کے پاس ایسا کوئی مکھوٹہ نہیں ہے لیکن دوہرا کردار ضرور ہے۔ اور اس کے ذریعہ وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بہلانے کی کوشش کررہے ہیں۔خود پارٹی بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ مسلمانوں کے بغیر ان کی حکومت نہیں بن سکتی۔ وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ مسلمان اسے پسند نہیں کرتے ہیں اور اسے ووٹ نہیں دیں گے لیکن بی جے پی نے معافی مانگنے کا شوشہ چھوڑ کر در اصل ایک چال چلی ہے تاکہ مسلمانوں کو متاثر کیا جاسکے اور ان کی مخالفت کے زور کو کم کیا جائے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں
)




Back   Home