ہندوستان دوراہے پر
ڈاکٹر محمد منظور عالم
1857میں جب مجاہدین آزادی نے جنگ آزادی کا معرکہ چھیڑا تھا تو اس وقت انھوں نے دو خواب دیکھے تھے ۔ ایک خواب ملک کو انگریزوں کی غلامی کے شکنجے سے نکالنا تھا اور ایک ایسے ملک کی تعمیر کرنا تھی جہاں انسانیت فروغ پائے، انصاف نظر آئے، بھائی چارگی کا عملی اظہار ہو، اپنی بات کہنے، سوچنے، عمل کرنے اور اپنی پسند کی زندگی گزارنے، اپنی پسند کی آئیڈلوجی، مذہب اور زبان کو قبول کرنے کی مکمل شخصی آزادی حاصل ہو، اور حکومت کسی کے خلاف تفریق نہ کرے، انتظامی مشنری کو بھی اسی ڈھانچے میں ڈھالا جائے اور دوسرا خواب یہ تھا کہ ہم سب مل کر غریبی کے شکنجہ سے باہر نکلیں اور ہمارا ملک عالمی سطح پر ایک ماڈل کی شکل میں تسلیم کیا جائے جس کے لیے سبھی ہندستانیوں کو جان ومال کی قربانی کے لیے تیار رہنا تھا تاکہ ایک مہان بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔ ان دو مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مجاہدین آزادی نے نہ رنگ ونسل دیکھا، نہ ذات پات، نہ مذہبی اختلافات اور آخری مغل فرماروا بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں جنگ کا آغاز کردیا، اور کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ملک کا مستقبل روشن ہو اس کے لیے کسانوں، مزدوروں، خواندہ اور ناخواندہ، عام نوجوان بالخصوص علمائے دین نے زبرست جدوجہد کی، ان لوگوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا لیکن اشفاق اللہ خاں کی آخری خواہش یہی تھی کہ ہمارے کفن میں یہاں کی مٹی ڈال دو۔ رام پرشاد بسمل نے ’دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ کی صدا بلند کی، چندر شیکھر اور بھگت سنگھ نے بھی حریت کا نعرہ بلند کیا۔ کسی نے برہمن واد کی بات نہیں کہی بلکہ سب نے آزادی کی بات کی۔ اس جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے نتیجہ میں 1947میں ہمارا ملک آزاد ہوا۔ تب ملک کے معماروں نے اسے ماڈل ملک بنانے کے جذبہ کو سامنے رکھتے ہوئے دستور تیار کیا۔ دستور کی تیاری سے قبل آئین ساز اسمبلی میں بڑی بحثیں ہوئیں۔ 1950تک چلنے والی ان بحثوں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کے متوالوں نے اس ملک کی سمت کا تعین کس طرح کیا تھا۔ جو دستور تیار ہوا وہ عوامی امنگوں اور جمہوری نظام کا آئینہ تھا۔ اس دستور کو دیکھ کر دنیا نے یہ کہا کہ ہندستان کا دستور دنیا کے بہترین دستوروں میں سے ایک ہے۔ جس کے ابتدائیہ میں انصاف، برابری، آزادی، بھائی چارگی اور اسی کے ساتھ شوشلزم اورسیکولرازم کو بھی شامل کیا گیا۔ آخری دو اصطلاحات بعد میں شامل کی گئیں جو آئین ساز اسمبلی کی ڈبیٹ کی منشا کے عین مطابق تھیں۔ اس طرح یہ تمام اجزاء دستور کا ضروری، اہم اور اٹوٹ حصہ بنے۔
1950میں دستور مکمل ہوکر عمل میں آگیا۔ ابتدائیہ کے تمام نکات کو مضبوط بنانے، آگے بڑھانے، ملک کو ترقی کی طرف لے جانے، کمزور طبقات کو اوپر اٹھانے، اقلیتوں کے تحفظ، ان کی زبانوں کی آبیاری، ان کو کسی طرح سے دہشت زدہ کرنے، دبانے اور کچلنے کے راستے کو روکنے کے لیے ان تمام چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے دستور کا مزاج آفرمیٹیو ایکشن (Affirmative action)کا رکھا گیا تاکہ ملک کی ترقی میں خواہ وہ سماجی، تعلیمی، اقتصادی ، کسان ہو یا مزدور وہ ناانصافی کا شکار نہ ہو، مگر کچھ ایسے اتفاقات شروع سے ہونے لگے کہ دستور کی روح کمزور پڑنے لگی۔ مجاہدین آزادی کے خواب شکن آلود ہونے لگے اور مایوسی کی جھلک پیدا ہونے لگی اور برہمن واد نے منواسمرتی کو نئی شکل دینے کی تیاری شروع کردی۔ جس کے نتیجہ میں ابتدائیہ کے سارے نکات کمزور ہونے لگے۔ اگر گہرائی اور ایمانداری سے حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ان سارے خوابوں کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جانے لگیں۔ ان کی ترتیب اس طرح تھی کہ جہاں انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے وہاں ناانصافی پروان چڑھنے لگی جس کے نتیجہ میں جیل کی کوٹھریوں میں کثیر تعداد میں دلت اور مسلمان جانے لگے اور ان کی شنوائی بھی کمزور ہونے لگی۔ انصاف مہنگا ہونے لگا، اچھے وکلاء مہنگے ترین ہونے لگے، غرض انصاف دلانے کے جتنے بھی کل پُرزے تھے وہ سبھی بھید بھاؤ کا شکار ہونے لگے۔ دلتوں، کمزور طبقات، اقلیتوں اور مسلمانوں پر ظلم وبربریت کا سلسلہ دراز ہونے لگا۔ بے قصور ہونے کے باوجود جیل میں مختلف الزامات کے تحت قید رہے۔ عدالت نے ثبوتوں کی عدم فراہمی کے سبب بری بھی کردیا تو نہ ان کی باز آبادکاری کی گئی اور نہ سماج نے اسے قبول کیا۔ اس طرح ابتدائیہ کا ہر وہ ستون ٹوٹنے کے مراحل میں آگیا جو جمہوریت کی طاقت اور علامت تھی، جس کی حفاظت عوام کو کرنا تھی۔ لیکن وہ اپنی ناخواندگی اور غربت کی وجہ سے لالچ اور بہکاوے میں آکر اپنے قیمتی ووٹ کو ایسے گروہوں کو دینے لگے جن کی سوچ دستور کے خلاف تھی وہ دستور کی روح کے خلاف کام کرتے تھے اور کررہے ہیں۔ ان سبھی ستونوں میں سے ہزاروں سال کے تاریخی پس منظر میں جس ستون کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی وہ برابری تھی، اس کو توڑنے کا کام کیا جس کی وجہ سے سماج کا تانا بانا بکھرنا شروع ہوا اور لگاتار بکھرتا ہی جارہا ہے۔ 2014 میں ہوئے لوک سبھا الیکشن کا نتیجہ دستور کی روح کے خلاف آیا۔ دستور کے ان ستونوں کو بچانے کی ذمہ داری جہاں ملک کے عوام پر تھی وہاں میڈیاپر بھی تھی کیونکہ میڈیا ایک ایسی طاقت ہے جو کمزوروں کی آواز بنتا ہے، بھید بھاؤ دور کرنے کی جدوجہد کرتا ہے، ظلم کو روکنے میں قلم کا جہاد کرتا ہے اور ان سب سے بڑھ کر جمہوریت کو بچانے کا وسیلہ ہے جو سچ کو سامنے لانے اور جھوٹ کا پردہ فاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرنے کا ہنر رکھتا ہے اور اس بات پر عمل کرتا ہے کہ ’جان دی تو اسی کی تھی حق یہ کہ ادا نہ ہوا‘۔ مگر افسوس کہ جو توقعات میڈیا سے کی گئی وہ اس پر کھرا نہیں اترا اور سرمایہ داروں اور کارپوریٹ ورلڈ کی باندی بن کر رہ گیا اور اگر اس میں کسی نے کوئی ہمت کی تو اسے دھول چٹانے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجہ میں وہ جمہوریت جو عوام کی، عوام کے لیے اور عوام سے قائم ہوتی ہے اسے صرف یکطرفہ رپورٹ ملتی ہے۔ زیادہ تر وہ اندھیرے میں ہوتی ہے۔ غلط کو صحیح پیش کرنے کے لیے گلوبلز کی زبان میں اتنی بار جھوٹ بولو کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے جسے 2014میں عام لوگوں نے دیکھا۔
ملک عظیم ہے اس کی حفاظت کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے اس لیے جس کے حصہ میں جتنی ذمہ داری ہے وہ اسے انجام دے تاکہ دستور کی حفاظت ممکن ہوسکے۔ مذکورہ پہلوؤں پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جمہوریت اور اس کی دیباچہ پر عمل پر روک کی آر ایس ایس کی 90سالہ کوشش جو ہوتی رہی ہے۔ وہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اور آج ساری پالیسیاں اسی طرح سے تراشی جارہی ہیں کہ دولت چند ہاتھوں میں ہی رہے البتہ کچھ فائدہ مڈل کلاس کو بھی ملے مگر غریب، غریب تر ہوتا چلاجائے تاکہ ترقی کی مشینوں میں یہ کمزور طبقات خواہ دلت ہوں، آدی باسی ہوں، اقلیات ہوں یا مسلمان ہوں، اس کے چھوٹے موٹے پرزے تو بن سکیں لیکن مشین کا اہم پارٹ نہ بن سکیں بالفاظ دیگر اقتصادی غلامی کے شکنجہ میں رکھا جائے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریبوں کی غربت بڑھتی ہے اور ان کے اثاثے بکتے ہیں وہ سرمایہ داروں اور کارپوریٹ کے سامنے ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اپنی پیداوار کو بھی کھلے بازار میں فروخت نہیں کرسکتے کیونکہ وہ بڑے بڑے مال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دولت جب چند ہاتھوں میں مرکوز ہوتی ہے تو اس کی فطری کوشش ہوتی ہے کہ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے عوام کو میڈیا کے ذریعہ اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ غلط باتوں کو اتنے زوروں سے پیش کیا جائے کہ عوام اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ کیونکہ سرمایہ داری نظام کا یہ بنیادی اصول ہے کہ ساری قوت حکمرانی ایک شخص یا ایک گروہ کے ہاتھوں میں پہونچ جائے جیسے ماضی میں راجہ، مہاراجاؤں کا دور تھا۔ سوا سال کی حکمرانی کاجو تجربہ سامنے آیا ہے وہ اس سے قطعی مختلف نہیں ہے۔ ایک شخص کی حکمرانی ہے، عوامی دور ختم ہورہا ہے اس کے نتیجہ میں خود اس حکومت کے وزراء اپنی بے بسی کے ساتھ اپنی وزارت چلاتے اور حکومت کا ساتھ دیتے ہیں، جو فاششزم کی پہچان ہے۔ فاششزم اور جمہوریت کا کبھی تال میل نہیں ہوسکتا کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جمہوری نظام کے ذریعہ آر ایس ایس کی حکمت عملی جو نفرت کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی، اقلیتوں بالعموم اور مسلمان بالخصوص کو اسکیپ گوٹ (اپنا الزام دوسروں پر رکھنا) کے طور پر استعمال کیا گیا اور دلت، آدی باسی اور کمزور طبقات جنھیں ایک خواب دکھایا گیا تھا کہ تم مہنگائی کے شکار نہیں ہوگے، چیزیں سستی ملیں گی، گھر مہیا کرایا جائے گا اور بھی جتنی سہولیات ہیں مہیا کرائی جائیں گی لیکن کوئی بھی آنکھ اورکان رکھنے والا دیکھ اور سن سکتا ہے کہ جنت دلانے کی بات تو بہت دور اعلیٰ ذات کے محلہ میں نہ مسلمان رہ سکتا ہے نہ دلت۔ وہ ساری سہولیات برہمنوں کے لیے مخصوص ہورہی ہے۔ ایک ہاتھ میں جب دولت سمٹتی ہے تو اس کا فائدہ صرف دولت مندوں کو ہوتا ہے اور جمہوریت کی تباہی شروع ہوجاتی ہے اور کمیونلزم کا دور دورہ شروع ہونے لگتا ہے۔ کثرت میں وحدت کی دستوری روح جو اس ملک کی روایت اور پہچان رہی ہے وہ تباہ وبرباد ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ہر سطح پر تعصب کا بول بالا ہوتا ہے۔ انصاف کی فراہمی مشکل ہوجاتی ہے، خون، خون میں فرق کیا جانے لگتا ہے، گردن، گردن میں امتیاز برتا جانے لگتا ہے اور تعلیم یک رخی ہوجاتی ہے جس سے سائنسی اپروچ، اور ٹکنالوجی کمزور ہونے لگتی ہے، کلچر یک رخی ہوجانے سے گنگا جمنی تہذیب کا خاتمہ شروع ہونے لگتا ہے اور طاقتور کے لیے انصاف کے راستے آسان ہونے کے ساتھ غریبوں کو انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتا ہے۔ قانون بھی یک رخی ہونے لگے اور محدود اپروچ پروان چڑھنے لگے تو منجملہ طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جمہوری نظام کے ذریعہ فاششزم اور ڈکٹیٹرشپ کا راستہ ہموار ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہندستانی اس بات پر غور کریں کہ ہمارے آبا و اجداد اور مجاہدین آزادی نے عظیم الشان قربانی کثرت میں وحدت اور آزادی وبرابری کے حق کو حاصل کرنے کے لیے دی تھی یا ایک خاص سوچ رکھنے والی فکر کو جمہوریت کے ذریعہ اقتدار پر بٹھانے کے لیے دی تھی؟
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home