بحیثیت مسلمان دستور کی روشنی میں ملک کو نفرت سے کیسے بچائیں؟
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
اسلام امن وآشتی اور ترقی کا دین ہے۔ یہ تمام بنی نوع انسانی کو خطاب کرتا ہے۔ یہ دین کسی طرح کی تفریق کو قبول نہیں کرتا بلکہ ہر طرح کی تفریق خواہ پیدائش کی بنیاد پر ہو، ذات برادری کی بنیاد پر ہو، نسل ورنگ کی بنیاد پر ہو یا جغرافیائی بنیاد پر ہو سب کا انکار کرتا ہے۔ سارے انسان آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔ اس لیے کوئی کسی پر امتیاز نہیں رکھتا بلکہ پیدائش کی بنیاد پر انسانی نقطۂ نگاہ سے سب کے سب انسان کی حیثیت سے برابر ہیں۔ کوئی اپنے اندر خصوصیت نہیں رکھتا اور کوئی پیدائش کی بنیاد پر کمتر یا بدتر نہیں ہو سکتا۔ اسلام ہر انسان کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی بناوٹ کے ساتھ آسمان اور زمین، سمندر، پہاڑ، بارش ہونے اور نہ ہونے، جنگلات، جانور اور جتنی بھی مخلوقات ہیں ان سب کی شکل وصورت، حرکات وسکنات، عمل اور ردعمل، رہنے سہنے اور جینے کے طریقے اور انسان کے اردگرد جتنی بھی چیزیں پائی جارہی ہیں سب پر غور وفکر کی نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ یہی امتیاز انسانوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ اسی لیے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اشرف المخلوقات کہا ہے۔ اس کے اشرف ہونے کی بنیاد صرف اور صرف عقل وفراست، بصارت وبصیرت، تقویٰ اور دماغ جس میں سوچنے، سمجھنے اور اس کی روشنی میں دنیا کو بنانے، بگاڑنے، سجانے اور اجاڑنے کی وجہ سے جزا اور سزا بھی رکھی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جہاں انسان برابر ہیں۔ انسان رنگ ونسل سے ممتاز نہیں کیا گیا ہے۔ سب کا خون ایک ہی رنگ کا ہے، سب میں انسانیت کا پہلو بھی رکھا گیا ہے۔ انسانیت اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب انصاف کا دامن نہ چھوٹنے پائے، کوئی بڑا اور اونچا نیچا نہ ہو بلکہ سب کو یکساں طور پر دیکھا جائے اور ہر ایک کو یہ برابری کا حق دے رہا ہے کہ برابری کے حق کو مضبوط کرنے کا ماحول بنایا جائے اور اس برابری میں کوئی رکاوٹ یا رخنہ آرہا ہے تو اسے دور کیا جائے اور اسے سوچنے، سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی اجازت ہو، کسی پر دوسرے کی خواہش تھوپی نہیں جا رہی ہو، اس کے لیے بہترین ماحول بنائے، اس میں جو رکاوٹ آرہی ہے اس کو ہٹانے، بھائی چارگی کو قائم رکھنے اسے مضبوط کرنے کے لیے اجتماعیت کے ساتھ کام کرنے اور ماحول کو سازگار کرنے کی ذمہ داری تمام انسانوں کو دی گئی ہے۔ مگر چونکہ انسان خیروشر کا امتزاج رکھتا ہے اور کبھی کبھی شر غالب ہوتا ہے اور جب شر غالب ہوتا ہے تو اس میں ایک امتزاج جو منع ہے سارے امتزاج پر مبنی سماج کی تشکیل ہو جاتی ہے اور جب تشکیل ہو جاتی ہے تو اس کے لیے نظام قائم کیا جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آدم سے لے کر آخری نبیؐ تک یہ پیغام انسانوں کو نبیوں کے ذریعہ، صلحاء کے ذریعہ، اچھے انسانوں کے ذریعہ اچھائی کی طرف بلانے کے لیے، برائیوں سے روکنے، اس کے راستے کو مسدود کرنے، اچھے کاموں کے لیے، اچھے راستے پیدا کرنے اور نکالنے کے متواتر انبیاء اور صلحاء انسانوں کے درمیان بھیجتے رہے اور آخری نبیؐ پر اس پیغام کو مکمل کر دیا گیا اور انہیں یہ کہا کہ ’تم وہ بہترین امت ہو جو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو‘۔
اسی طرح مسلمانوں پر یہ دینی فریضہ ہے کہ اچھائیوں کو بڑھانے اور برائیوں کو روکنے اور اس کے راستے کو مسدود کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس ذمہ داری کا تقاضہ ہے کہ اہل ایمان انسانوں کے مسائل اور ان میں جو برائیاں بڑھ رہی ہیں جیسے ان کے اندر نسلی امتیازات، اونچ نیچ، اعلیٰ اور ادنیٰ خاندان کا جو تصور پایا جا رہا ہے اس کو بہترین انداز میں اچھے الفاظ میں بہترین حکمت عملی کے ساتھ عوام الناس کو سمجھایا جائے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کو خاص طور سے اپنے ملک کے دستور کی روشنی میں کئی سطح پر سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ راستہ جو آگ کی طرف لے جا رہا ہے اور وہ سارے راستے جو ظلم وبربریت کی طرف کھینچ رہے ہیں، یا اس طرف ڈھکیلا جا رہا ہے، نفرت اور تشدد کی بنیاد پر ہندوستان کے بہترین دستور کی روح کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے بچانا جہاں اہل علم اور سمجھ دار افراد کی ذمہ داری ہے وہاں اہل ایمان کی بھی اعلیٰ ترین ذمہ داری ہے اور اس کو ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ ہم ان تمام ایشوز کو دستور کے مطابق عمل کرنے میں جو رکاوٹ بنی ہوتی ہیں اس کو اچھی طرح سے سمجھ لیں اور سمجھنے کے بعد مناسب راہ عمل بنانے اور تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اس بابت چند مثالیں سوچ اور عمل کے طور پر عوام الناس، دانشوران، علماء کرام، نوجوانان ملک اور خواتین کے سامنے غور کرنے کے لیے پیش کر رہا ہوں:
(1) اس وقت ہمارا ملک نفرت کی آگ کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے جس سے نہ صرف جھلس رہا ہے بلکہ جل رہا ہے۔ اس نفرت کی آگ کو کیسے ٹھنڈا کیا جائے۔ یہ اہل علم وبصیرت اور اہل ایمان والوں کی بڑی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم معاشرے کی ہیئت ترکیبی پر گہری نظر ڈالیں اور اہل بصیرت کے طور پر اس کی عملی شکل نکالنے کی کوشش کریں جس میں اسلام کی تعلیم جو حسب مرتبت کی بڑی اہمیت دیتی ہے، اس کو سامنے لائیں۔ مثال کے طور پر مختلف مذاہب کے اہم افراد جو ان مذہب کے ماننے والوں کے درمیان نہ صرف احترام سے دیکھے جاتے ہیں بلکہ ان کی باتوں پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ بڑی اہمیت اور قدر کے ساتھ عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ہندؤں میں ایسے افراد مثلاً شنکرآچاریہ، مٹھوں کے ذمہ دار، دیگر اہم منادر کے پجاری جو اپنے مذہب، جس میں شانتی، انسانیت، بھلائی، بھائی چارگی کی بات پائی جاتی ہے ان لوگوں سے مسلمانوں میں جو دین اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، ہر انسان برابر ہے، ہر انسان کو مذہب قبول کرنے اور نہ قبول کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ کسی بھی مذہب کو کسی پر تھوپا نہیں جا سکتا۔ اگر ایسے لوگوں کی ٹیم منتخب کی جائے اور ان سے یہ گزارش کی جائے کہ ایک وفد بنایا جائے اور یہ وفد دیگر مذہبی رہنماؤں سے ان کے منادر، مٹھوں یا ان کی بتائی ہوئی جگہوں پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جائے تو غلط فہمی کے شعلے جو بھڑک رہے ہیں یا بھڑکائے جا رہے ہیں اس میں کمی آنے لگے گی۔
(2) اسی طرح پورے ملک میں مسجدوں، منادروں، گرجاگھروں، گرودواروں اور مٹھوں وغیرہ کے جال میں خاص طور سے مساجد کے امام ان کے منادر کے پجاریوں اور مشہور پنڈتوں سے ملاقات کریں اور انہیں آئین ہند کے دیباچہ کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کریں کہ کیسے محبت وآشتی پیدا ہو سکتی ہے، کیسے ہم آپس میں میل محبت سے رہ سکتے ہیں اور کیسے ایک دوسرے کا احترام سکھا سکتے ہیں۔ اگر یہ ذمہ داری مسلمان امام کی طرف سے شروع ہو تو شاید آگ دھیرے دھیرے بجھنے لگے گی۔
(3) بے شمار سماجی برائیاں جن میں شراب، نشہ بندی، قبحہ خانہ اور جوا خانہ جس سے ہندوستان کی غریب خواتین اور بالخصوص غریب افراد، دلت سماج اور پسماندہ لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں، گھر برباد ہوتے ہیں اور اس گھر کی بربادی ہر طرح کی برائی کا راستہ کھولتی ہے اگر مسلم پڑھی لکھی خواتین جو اس سماج میں رہتی ہیں اور مسلم مرد اس پیغام کو خواتین کے درمیان مسلم خواتین کے ذریعہ اور مسلمانوں کی طرف سے پوری مدد ان خواتین کو فراہم کی جائے تو معاشرے میں تبدیلی پیدا ہونے لگے گی جس کے نتیجہ میں نفرت جو گھر گھر پہنچائی جارہی ہے اور تشدد بھڑکایا جا رہا ہے اس میں زبردست کمی آئے گی۔
(4) مسلمانوں میں وہ تمام دانشور خواہ وہ صحافی ہوں یا تعلیمی یونیورسٹیوں میں ہوں یا اسکول میں ہوں، مکتب میں ہوں وہ امن وآشتی کا پیغام اور محبت کے ساتھ برابری، اچھے ہمسایہ اور برابری کا سبق ان پڑھے لکھے افراد جو ان کے ساتھی بھی ہیں، اسٹوڈنٹس بھی ہیں اور معاشرے کے اچھے لوگ ملتے جلتے بھی ہیں، کو پہنچائیں۔ ملک کے آئین کے دیباچہ کو عملی شکل کیسے دی جا سکتی ہے، طلباء وطالبات، یونین اور اس کے ذمہ داروں کو اس موضوع پر سمجھانے اور اچھا معاشرہ بنانے اور دستور کی عظمت کو بنانے کی پہل کریں تو مستقبل میں نفرت کی آگ پھیلانے والوں کی ناکامی لازم ہو جائے گی۔
(5) آج کا نوجوان خواہ مرد ہو یا عورت کل کا مستقبل ہے اور کل کے مستقبل کی ذمہ داری ان ہی کے کندھوں پر جائے گی۔ ان نوجوانوں میں مسلم نوجوان بھی شامل ہیں وہ یہ سوال اٹھائیں کہ کل کا بھارت امن وآشتی کے ساتھ ترقی کی بلندی پر پہنچنے والا بنانا ہے یا کشت وخون، جان ومال، عزت وآبرو کو برباد کرنے والا ملک بنانا ہے۔ ایسا سماج بنانا ہے جہاں ہر کسی کو محسوس ہو کہ ہم ایک دوسرے کے برابر ہیں، کسی کو کسی طرح کا خوف وہراس نہ ہو، لڑکیوں کو یہ خوف نہ ہو کہ اس کی عزت وناموس کسی مرحلہ پر تار تار ہو گی اور آدی واسیوں کو یہ خوف نہ لگے کہ جن، جنگل اور زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں چڑھ جائے گا اور وہ غلامی کے شکنجہ میں ہی کام کرے گا یا اس کی اولاد، تعلیم وتربیت کے ذریعہ اعلیٰ مقام حاصل کر کے اپنے ملک کا وقار بلند کرنے کے لیے تیار ہو گی۔
انسانی زندگی کا وقار تعلیم، غربت سے آزادی، بھیک مانگنے کی نوبت سے نجات پانے پر قائم ہے۔ اگر انسان غربت کی وجہ سے، جہالت کی وجہ سے کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو وہ وقار انسانی نہیں ہے اور اس وقار انسانی کے لیے جہاں آئین ہند نے 14 سال کی عمر تک تعلیم کو لازمی کیا ہے اور ہر طرح کا انصاف دینے دلانے کی گارنٹی دی ہے لیکن کچھ منحوس ہاتھ اسے چھین رہے ہیں اور اس پر عمل نہیں ہونے دے رہے ہیں، رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں، اسے یقین ہے کہ انسانوں کو غلام بنا کر رکھا جائے، استحصال کیا جائے بالخصوص ان کی خواتین اور بچیوں کا انسانی استحصال ہو، اسے روکنے اور ختم کرنے کے لیے ان تمام غرباء وکمزور جو کثیر تعداد میں ملک میں پائے جاتے ہیں ان سے رابطہ قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کو پہل کرنا چاہیے۔ یہ عین اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور اس کی ابتداء مسلمان اپنی امت سے شروع کر سکتا ہے جس میں دیگر قوموں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ انسان کے اشرف ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سارے انسانوں کے لیے نہ صرف کام کریں بلکہ اسلام کی تعلیم کی روشنی میں علامت بن سکیں۔
اگر مسلمانوں کے علماء کرام، دانشوران، طلباء وطالبات، گاؤں میں رہنے والے افراد، مساجد کے امام، خانقاہوں کے سجادگان، سیاسی لیڈران اور تمام ہی باشعور انسان اس پر غور وفکر کریں اور جو چند باتیں رکھی گئی ہیں اس کی روشنی میں حل تلاش کرنے کی کوشش کریں تویہ ہمارا ملک ایسا بن سکتا ہے جس کی خوشبو دنیا بھر میں پھیل سکتی ہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home