جمہوریت کے تقاضے کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھیں
ڈاکٹر محمد منظور عالم
رمضان سے استفادہ کرتے ہوئے ہم مسلمانوں نے اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کی یقیناًکوشش کی ہوگی۔ شوال کا مہینہ اس کے تتمہ کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں 6روزوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ خاص طور سے مسلم قیادت خواہ علماء کرام ہوں یا دانشواران، قومی قیادت ہو یا صوبائی یا مقامی۔ ان لوگوں کے اندر مسلمانوں کے مسائل سے نہ صرف ہمدردی بلکہ ان مشکلات کا حل نکالنے کی کوشش شاید تیز ہوجائے کیونکہ جمہوری نظام میں سیاست بڑی ہی اہم ہوتی ہے اور اگر سیاسی پہلو پر نگاہ نہیں ہو تو وہ ہمیشہ محکوم ہی رہے گی۔ فیصلہ میں اس کا شیئر نہ کے برابر ہوگا اور جس قوم نے بھی جمہوریت کے اس تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی وہ قوم وقت کے ساتھ مجبور محض نظر آتی ہے اور خواہ ہم کتنا بھی ’بھائی چارگی‘ کی بات کریں جو قوم حکمراں بن جاتی ہے وہ اس کمزور طبقات کو ’چارہ‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہے۔ رمضان کا مبارک مہینہ اور یہ شوال کا مہینہ ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنے، فکر کرنے، تدبر کرنے، کوشش کرنے اور اجتماعی قوت کو جمع کرنے اور آپس میں تبادلہ خیال کرنے، پیارومحبت بڑھانے، اسلام کی تعلیمات کو بنی نوع انسان کے لیے صحیح طور سے پیش کرنے، اس کے پیغام کو عام انسانوں تک پہونچانے اورا س کے لیے مناسب پلان کرنے، عملی شکل نکالنے اور ایسا لائحہ عمل جو تنقید کرنے کے لائق بھی بن جائے اور تنقیدی سوچ سمجھ کو آگے بڑھائے، آپس میں اچھے روابط قائم کرنے اور دوسروں کے کاموں کو پسندیدگی سے دیکھنے، تشدد خواہ گروہی ہو یا مسلکی، اپنی انانیت کا حصہ ہو یا فوقیت دینے کی باتیں ہوں ان سب سے الگ ہوتے ہوئے احسن طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ دوسری طرف جمہوریت میں یہ بھی ضروری ہے کہ دوسری قوم مسلمانوں کے خلاف کیا زہر پھیلا رہی ہے،کس طرح کے مسائل کو پیدا کررہی ہے،کس طرح سے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ کس طرح مسلکی اختلافات کو ہوا دے رہی ہے،کس طرح گروہی تعصب کو ایک دوسرے کے خلاف بڑھا رہی ہے اور اسے جنم دے رہی ہے، اس کے شعائر اسلامی کو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ آپس میں کشت وخون کو بڑھا رہی ہے اور ملک کے ساتھ جو وفاداری، قربانی آزادی کی مہم میں جانوں کے نذرانے کو کم تر یا بھلانے کی کوشش کررہی ہے۔ مسلمانوں کے ہر اچھے کام کو مشکوک میڈیاکے ذریعہ کرارہی ہے اور مسلمانوں کے اندر خوف وہراس پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ دلتوں، آدی واسیوں،کمزور طبقات کو ہندوازم کے نام پر جمع کرکے مسلمانوں سے دور کرنا چاہ رہی ہے۔
ملک کے موجودہ تناظر میں اہل فکر کو تدبر اور دانشوروں کو ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں اولاً بحیثیت ایک مسلمان کے جوا مت خیر بھی ہے اور تمام انسانوں کے لیے اچھے کاموں کے لیے مامور کیے گئے ہیں، اچھے کاموں کو پھیلانے پر زور دیا گیا ہے، انسان، انسان کے بیچ کوئی چھوٹا بڑا ہونے کے پہلو سے انکا رکیا گیا ہے، ہرانسان کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے، ہر ’انسان ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوتا ہے‘ مگر اسے غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، غلامی سے آزاد کرنے کی جدوجہد امت خیر کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے قیادت کا فرض منصبی بن جاتا ہے خواہ وہ قیادت بحیثیت مسلمان دینی ہو یا دوسری فیلڈ کے ماہرین ہوں سبھی کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے پہلی چیز یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیا حکم دیاہے۔ اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ ’’اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو ‘‘اور اسباب بھی بتایا گیا ہے کہ اگر اختلاف اور تفرقہ رہا تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اس پہلو پر غو ر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں جس پر اتفاق رائے قائم کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان خواہ ہندوستان میں ہوں یا دنیاکے کسی بھی کونے میں،اسلام نے سب سے زیادہ زور تعلیم پر دیا ہے۔ قرآن میں تقریباً 800مقامات پر تعلیم کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ تمام اعداد وشمار خواہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی اوا یس) کی تیار شدہ کتابیں ہوں، سچر کمیٹی رپورٹ ہو یا پھر کندو کمیٹی اور حالیہ مردم شماری رپورٹ سبھی نے یہ ا عداد وشمار فراہم کیے ہیں کہ تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی حالت آدی واسیوں سے بھی بدتر ہے۔ جس قوم کے اندر تعلیم نہ ہو وہ قوم نہ مستقبل کو صحیح طور سے سوچ سکتی ہے، نہ سمجھ سکتی ہے،دشمنوں کی سازشوں کو سمجھنا اس کے بس میں نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں خاص طور سے 2017 میں مایوسی کی وجہ سے اس کے اندر اشتعال انگیزی پیدا ہوگی اور وہ اشتعال انگیزی تعمیری پہلو سے زیادہ مایوسی کا شکار ہوتا جائے گا اور اس مایوسی میں جذباتیت غالب ہوتی جائے گی جس کا فائدہ جمہوری نظام میں مسلمانوں کے اندر موجود سیاسی قیادت اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی اور جو قوم غالب ہوگی وہ مسلمانوں کی ان کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی اور آپسی محبت کے تال میل کو توڑنے کی کوشش کرے گی اور ایک دوسرے کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کی کوشش کرے گی۔ یہ صورتحال جو بصارت نہیں رکھتے ہیں وہ بھی آج کے حالات میں محسوس کررہے ہوں گے۔ اقتصادی پہلو اور روزگار کے پہلو سے بھی سارے اعداد وشمار بول رہے ہیں کہ مسلمان آبادی کے نقطۂ نگاہ سے نہ صرف بہت پیچھے ہیں بلکہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھکاریوں کی ایک چوتھائی تعداد مسلمانوں کی ہے اور ان کے لیے زمین بھی تنگ کی جارہی ہے اور یہ وہ حصہ ہے جہاں مسلم قیادت کو بھرپور کوشش کرنا چاہیے کہ اس کا حل کیسے نکالا جائے۔ تیسری طرف سماجی تانے بانے خود مسلمانوں کے اندر بھی اور ملک کے اندر بھی ٹوٹتے چلے جارہے ہیں اور اسے توڑا جارہا ہے۔ سماجی تانے بانے اہل ایمان پر ایک طرح کافرض ہے کہ اسے مضبوط کریں اور اسے مضبوط کرنے کے لیے جہاں آپسی میل محبت، آپسی اختلاف کو کم کرنے، آپسی میل جول کو بڑھنے وہاں سماج کے کمزور طبقات سے ہمارے تعلقات بہتر ہونے چاہیے۔ انھیں سماجی سدھار کے لیے ملنے، بیٹھنے، سوچنے، کھانے اور پینے کے ذریعہ حل نکالنا چاہیے تاکہ ہمارے خلاف جو بھی غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں اس کو دور کیا جاسکے۔اس کام کے لیے جہاں انفرادی، اجتماعی اور مختلف میدانوں کے ماہرین کو آگے آنے کی ضرورت ہے وہیں سیاسی قیادت کو سمجھ بوجھ اوربصیرت کی بھی ضرورت ہے۔ مسلم عوام کو اس بات پر آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ جہاں سیکولر حکومتیں مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں وہاں مسلم قیادتیں ان تنظیموں میں رہنے کے بعد ان مسائل کا حل عملی طور پر پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں اور عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جن مسلم قیادت کو جس سیکولر پارٹی نے دوبارہ، سہ بارہ اور چوتھی بارموقع فراہم نہیں کیا تو وہ مسلم مسائل کے علمبردار بن کر سامنے آتے ہیں اور کبھی کبھی سیکولرپارٹیوں کی اہم شخصیات سے جب کچھ بات بن جاتی ہے تو ان کے تیور بدل جاتے ہیں۔ دوسری طرف جو علاقائی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ بھی چند ایک کو چھوڑ کر کوئی من الحیث قوم بہت اچھا رول اد انہیں کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں خاص طور سے 2017اور 2019میں جو کچھ ہونے کا اندیشہ ہے اس کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنا لائحہ عمل کیسے بنانا چاہیے۔ جمہوریت میں بغیر آواز اٹھائے اپنا حق نہیں ملتا مگر آواز اٹھانے اور جذباتیت کا نعرہ دینے میں فرق یا تمیز کرنے کی ضرورت ہے جو ماحول اس وقت بنا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی میڈیا کو ساتھ لیتے ہوئے اور حکومت کی مشنری کا غلط استعمال کرتے ہوئے جہاں خوف وہراس کا ماحول بنانے کی مستقل کوشش کررہی ہے وہاں ہندو مسلم کو تقسیم کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ لوگ اس میں مہارت رکھتے ہیں اور کس بہانے کب، کیا ہو اس کا کسی کو صحیح اندازہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں چند تجاویز ہیں: (1) مسلمانوں کو خاص طور سے اپنے رویے میں فراست کے ساتھ یہ سوچ پیدا کرنا ہے کہ وہ بھڑکانے والے نعروں اور مسلمانوں کو زک پہونچانے والے اقدام کا فوری ضروری نہیں کہ جواب دیا جائے اور اسی لیے قرآن نے صبر پر زور دیا ہے۔ صبر کامعنی یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھو بلکہ غور وفکر کرکے مثبت قدم اٹھاؤ۔ (2) مسلمانوں کو اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ 2017کا جو انتخاب ہے اس کی اہمیت ملک بچانا، دستور کا تحفظ کرنا اور ملک میں بسنے والے سبھی شہریوں کے اندر تال میل جو برابری اور Libertyدستور کا اہم حصہ ہے اس کے مثبت تحفظ کے لیے مثبت قدم اٹھانا ضروری ہے اس میں اس پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کمزور طبقات کے ساتھ مسلمانوں کے اچھے روابط کیسے قائم ہوسکتے ہیں اور مسلمانوں کی ایسی قیادت جو ووٹ کو تقسیم کرنے کے درپے ہے اس سے کیسے بچاجائے۔ (3) سیاست کے بغیر جمہوریت برقرار نہیں رہ سکتی اور جمہوریت کے بغیر کوئی عملی قدم اٹھایا نہیں جاسکتا جس میں تعلیم، اقتصاد، روزگار بالفاظ دیگر ترقی کے سارے منازل طے نہیں کیے جاسکتے۔ اس لیے جہاں ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے وہاں اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کی نمائندگی کیسے اور کس طرح بڑھائی جائے، صرف تعداد کے لحاظ سے نہیں بلکہ جسے بھی ہم منتخب کریں ان کے ماضی کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے سوچ وفکر کے بعد سپورٹ کرنا چاہیے۔ (4) اس وقت خاص طور سے یوپی کا جو ماحول بنا ہوا ہے یا بنایا جارہا ہے وہ ایک خطرناک عفریت کی طرح منھ پھاڑے ہوئے ہے اور وہ مسلمانوں کو نگل جانا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کی دانشمندی اسی میں ہے کہ جہاں اس بات کی بھرپور کوشش کریں کہ پولورائزیشن کی ساری کوششیں آر ایس ایس بی جے پی کرنے اور کرانے کی کوشش کرے گی کو ناکام بنادیں۔ ڈمی امیدوار کھڑا کرنے کی کوشش کرے گی، فسادات کو بھڑکانے کی کوشش کرے گی۔ ہمیں اچھے تعلقات یوپی کے کمزور طبقات سے استوار بھی کرنا ہے اور ایسے امیدوار جو جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں ان کو ووٹ دیکر اپنا قیمتی ووٹ برباد نہ کریں۔ (5) ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے اور اس کا بڑا اندیشہ ہے کہ جیسے جیسے الیکشن قریب آتاجائے گا مسلمانوں کے اندر بھی ذات برادری کے مسئلہ کو اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ ہم مسلمانوں کو بالخصوص نوجوانوں کو یہ اچھی طرح سے سمجھنا چاہیے کہ یہ ہمیں نقصان پہونچانے کا ذریعہ ہوگا اور نوجوان اس مہم کو آگے بڑھائیں تاکہ جمہوریت کے پاؤں مضبوط ہوں اور دستور کا قانون نافذ ہوسکے۔ آخری بات یوپی کا یہ الیکشن 2019کا پیش خیمہ ہے۔ یہاں سمجھداری، بصیرت اور فراست سے اگر ریاست میں ماحول سازگار بنانے میں ہم کامیاب ہوتے ہیں،سیکولر پارٹیوں سے مختلف خدشات اورمسائل کے سلسلے میں گفت وشنید کا مناسب طریقہ اختیار کیا جائے اور اس بات کی بھی کوشش کی جائے کہ ایک پیوپل ایجنڈہ تیار کیا جائے جس میں سیکولر پارٹیوں کے سبھی Commitmentلی جاسکے اور اس ماحول سازگاری کے لیے مناسب قدم بھی اٹھایا جاسکے تو شاید 2019کا جو بڑا خدشہ ہے وہ ٹل سکے۔ دستور جو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور ان کے ساتھیوں نے بنا یا تھا اس پر ہمارا ملک قائم بھی رہے اور اس دستور اور اس کے دیباچہ پر صحیح طریقے سے عمل بھی ہوسکے گو کہ یہ ساری ذمہ داری مسلمانوں، دلتوں، آدی واسیوں اور اقلیتوں کی تو ہے ہی لیکن مسلم قیادت کے ساتھ ساتھ یہاں کے انصاف پسند اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والے سبھی شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |