فرانس، جرمنی اور کناڈا دورہ،کیا ’میک اِن انڈیا‘ کا خواب پورا ہوگا؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
وزیر اعظم نریندرمودی حکومت کا جلد ہی ایک سال پور امکمل ہورہا ہے۔ اس عرصہ میں وہ جہاں ملک کے اندر اپنی طرز حکمرانی کے سبب موضوع بحث رہے وہاں اپنے غیر ملکی دوروں سے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ بڑے پیمانے پر ملک میں سرمایہ کاری ہوگی جس کی وجہ سے ملک تیز رفتاری سے خوشحالی کی جانب بڑھے گا۔ 11مہینے کی دور حکمرانی میں انھوں نے 15ملکوں کا دورہ کیا۔ ان کے دورے کے فوائد ملنے شروع ہوئے یاصرف زبانی خرچ ہے، پرکوئی تبصرہ کرنا جلد بازی ہوگی البتہ حالیہ دنوں میں جس طرح تین ملکوں فرانس، جرمنی اور کناڈا کا دورہ کیاا ور اس کو لیکر جو دعوی کیے جارہے ہیں اس پر سماجی اور اقتصادی اداروں کی جانب سے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس لیے یہ سوال بہت اہم ہے کہ ان تین ملکوں کے دورہ سے ملک کو کیا ملا؟ اور اس کے اثرات ملک کی اقتصادیات پر کیااور کتنے مرتب ہوئے؟ کیونکہ جس طرح وہاں انھوں نے پیش رو کانگریس پارٹی کا نام لیے بغیر کہا کہ لوگ گندگی کرکے چلے جاتے ہیں، ہم صفائی کرنے آئے ہیں۔ اس کو لیکر یہ عام تاثر پایا جارہا ہے کہ اس طرح کے بیانات سے بیرونی ملکوں میں ہندستان کی ساکھ کو مجروح کرنے کی کوشش ہے جس کے سہارے خود نمائی مقصود ہے تاکہ سستی شہرت حاصل کی جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں سرمایہ کاری کے لیے ملک کی ساکھ کو مجروح کرنا ضروری ہے یا یہ ڈھول کا پول ہے جو صرف دکھاوے تک محدود ہے۔
تین ملکوں کے دوروں کی اس سیریز میں وزیر اعظم نریندرمودی سب سے پہلے فرانس پہونچے جہاں انھوں نے مہاراشٹر کے جیتاپور میں واقع بجلی پلانٹ جو کہ التواء میں پڑا ہوا تھا، اس پر گفت وشنید کی۔ یہ پروجیکٹ فرانس کی ایک کمپنی اور ہندستان کے تعاون سے مہاراشٹر کے جیتا پور میں قائم کیا جانا تھا لیکن لاگت سے متعلق کچھ شرائط کو لیکر معاملات نہیں بن پائے جس کی وجہ سے پچھلی حکومت نے ان شرطوں کو ماننے سے انکار کردیا اور یہ معاملہ ہنوز معلق ہوکر رہ گیا۔ نریندرمودی نے 2010میں ہوئے اس سمجھوتے پر اپنی رضامندی ظاہر کردی ہے۔ 10ہزار میگاواٹ بچلی پیدا کرنے والے اس پلانٹ کے تعلق سے ماہرین پلانٹ لگانے والی ایورا نامی کمپنی کے بیک گراؤنڈ کو لیکر مطمئن نہیں ہیں۔ اس تعلق سے نیوکلیائی ماہرین اور سماجی کارکن اس پر سوالات کھڑے کررہے ہیں۔اس بابت ان لوگوں نے باضابطہ وزیر اعظم نریندرمودی کو ایک عرضداشت پیش کر ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ اس سے معاہدہ نہ کیا جائے، کیونکہ ایورا نامی کمپنی کو 2014میں 5.6بلین ڈالر کا گھاٹہ ہوچکا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فن لینڈ جیسے ملک کی الکی لوڈومیں تین جوہری ری ایکٹرس کمپنی کو بنانے تھے اس میں طے شدہ وقت سے زیادہ کا وقت لگا جس کی وجہ سے اس کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس کے علاوہ شمالی فرانس میں بھی یہ کمپنی ایک پلانٹ بنارہی ہے اس میں بھی ماہرین نے خامیاں پائی ہیں۔ اس لیے اس بات کا خطرہ ہے کہ ہندستان میں بنائے جانے والے پلانٹ میں حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں گی یا نہیں۔ وہ بھی جب فرانس کے لوگ اس کمپنی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں تو ہندستان کو اس میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ یہاں انھوں نے لڑاکو طیارے رافیل کی خریداری کا سمجھوتہ کیا۔ اس پر کافی بحث ومباحثہ ہوا ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے نقطۂ نظر سے اس کا جائزہ لے رہا ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس سمجھوتہ کا جائزہ ملک کی ضرورت کے نقطۂ نظر سے لیا جائے۔ دفاعی ماہرین کے تجزیوں کے مطابق اس سمجھوتے پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں ایسی کئی باتیں شامل ہیں جو طے شدہ راستے سے الگ ہیں۔ مثال کے طور پر شروع میں طے ہوا کہ 18طیارے فرانس سے خریدے جائیں گے اور 18طیارے ہندستان میں بنائے (Assemble)جائیں گے لیکن اب کہا جارہا ہے کہ 36طیارے فرانس ہی تیار کرے گا۔ اس طرح ان طیارے کے اندرون ملک جوڑنے کا جو کام ہوناتھا وہ نہیں ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ’میک ان انڈیا‘ نعرے کے خلاف ہے کیونکہ جب یہ ملک میں نہیں بنیں گے تو روزگار کیسے ملے گا اور کن بنیادوں پر غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کریں گی۔ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ میڈیا نے ان سودوں سے متعلق تفصیلات پر کوئی بحث نہیں کی جبکہ بی جے پی رکن سبرامنیم سوامی نے واضح طور پر یہ دھمکی دی کہ اگر حکومت رافیل لڑاکو طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کرتی ہے تو وہ قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ ان کے مطابق لیبیا اور مصر میں رافیل طیارے کی کارکردگی جنگی طیاروں سے خراب رہی ہے اس لیے کئی ممالک نے اپنے آرڈر منسوخ کردیے۔ اس جہاز کو بنانے والی ڈیسالٹ کمپنی دیوالیہ ہونے کے درپے ہے جس کی وجہ سے اس کے کل پُرزے بھی ملنا مشکل ہے۔ اس دورے میں وزیر اعظم نے جس طرح کانگریس قیادت والی یوپی اے IIکو نشانہ بنایا اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ ہماری تاریخ رہی ہے کہ جب بھی کوئی بیرونی دورے پر جاتا ہے تو وہ اپنے ملک کے اندرونی جھگڑوں یا آپسی نااتفاقیوں کو بیان نہیں کرتا ہے اس کے پیچھے منشا یہ ہوتی ہے کہ ملک کی ساکھ بیرونی دنیا میں مجروح نہ ہو۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے اس روایات کا احترام نہیں کیا اور حکومت کے کام کاج کو وہاں نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ بعض باتیں ایسی بھی کہیں جو حقائق کے خلاف ہیں اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔ کناڈا میں آنے والا خود کو پہلا وزیر اعطم بتاتے ہوئے اپنی پیٹھ تھپتھپائی لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کردیاکہ 42سال قبل اندرا گاندھی نے وہاں کا دورہ کیا تھا ۔ ان کے ذریعہ اس طرح کی لاعلمی کوئی پہلی بار سامنے نہیں آئی ہے۔ بلکہ لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے کئی مواقعوں پر تاریخی حقائق کو غلط طور پر پیش کیا جس پر ماہرین نے گرفت بھی کی اور حقائق کو واضح کیا۔ معروف صحافی اور تجزیہ نگار سدھارتھ ورد رجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’وزیر اعظم نریندرمودی نے پہلے جاپان پھر برلن میں سیکولرازم اور سیکولرسٹس کا مذاق اڑایا ہے جبکہ انہیں کی حکومت نے گرین پیس نامی تنظیم کی کارکن پر یا پِلئی کو لندن جانے سے اس لیے روک دیا تھا کہ وہ وہاں ہندستان کے ایک کان کنی پروجیکٹ کے خلاف تقریر کرنے والی تھیں۔ اگر پریا پلئی کے عمل کو حکومت ’ملک مخالف‘ قرار دے سکتی ہے تو مودی کی حرکتوں کو بھی اسی زمرے میں کیوں نہ رکھا جائے؟‘‘ کناڈا سے یورینیم سمیت کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ کناڈا پہلے ہندستان کو یورینیم سپلائی کرتا تھا لیکن 1970کے ایٹمی دھماکے کے بعد اس نے پابندی لگادی تھی لیکن نریندر مودی کی کوششوں سے وہ دوبارہ یورینیم سپلائی کرنے پر تیار ہوگیاہے۔ لیکن جس میک ان انڈیا کا خواب نریندرمودی نے دکھایا ہے وہ ابھی بھی دور ہے۔ حالیہ ایک سروے کے مطابق کناڈا کی ایک بڑی تعداد آج بھی ہندستان کے مقابلے چین سے باہمی تجارت کے حق میں ہے اورباہمی تجارت کے جو اعداد وشمار ہیں اس کے مطابق چین سے ہی کناڈا کی تجارت سرفہرست ہے۔ چین کے اثر کو وہاں کس طرح کم کیا جائے گا، یہ اپنے آپ میں ایک بڑ اسوا ل ہے ۔ فرانس، جرمنی اور کناڈا کے دورے میں جیتاپور میں نیوکلیائی کارخانہ میں 1650میگاواٹ کی چھ یونٹوں کی تعمیر کے لیے تکنیکی اور تجارتی مذاکرات کو جلد از جلد انجام تک پہونچانے، ہندستان کے تین شہروں ناگپور، پانڈوچیری اور ایک دیگر شہر کو اسمارٹ سٹی بنانے، کناڈا سے پانچ سال تک یورینیم سپلائی کا معاہدہ سمیت تقریباً دو درجن معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ ان معاہدوں سے ’میک ان انڈیا‘ کے لیے کتنی سرمایہ کاری ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ’اسکل انڈیا‘ کے دعویٰ کو بھی ماہرین حقیقت سے دور بتارہے ہیں۔ ملک کی 65فیصد کی نوجوان آبادی 35سال سے کم عمر کی ہے اس کو استعمال کرکے ملک اسکل ڈیولپمنٹ کا بہترین نمونہ بن سکتا ہے لیکن جس طرح گزشتہ ایک سال کی حکمرانی میں بی جے پی آر ایس ایس اور اس سے جڑی تنظیموں کے لوگوں نے اشتعال انگیزی کر کے منافرت پیدا کی ہے اس سے ماحول اسکل ڈیولپمنٹ کے خلاف بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماج کے کمزور اور پسماندہ طبقات میں بالخصوص اور مسلمانوں میں بالعموم خوف پایا جارہا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ باربار اقلیتوں او رکمزور طبقات کے تحفظ کی بات کرتے ہیں لیکن اس کا عملی نمونہ سامنے نہیں آتا ہے جس کی وجہ سے شر پسند عناصر اکثر وبیشتر اپنے اشتعال انگیز بیانات سے ماحول کوزہر آلود کرتے رہتے ہیں اور ملک کو ترقی کے ایجنڈہ سے دور کرتے ہیں۔ ملک میں عملی اقدامات اور شر پسندی عناصر پر لگام لگانے کے بجائے بیرونی ممالک میں معاہدوں، یقین دہانیوں اور وعدوں کو جس طرح باشندگان ملک کے سامنے پیش کیا جارہاہے اس پر عام تاثر یہی ہے کہ مودی سانتا کلاز کی طرح تحفے بانٹ رہے ہیں اور یہی تحفہ فرانس کی رافیل لڑاکو طیارہ بنانے والی کمپنی کو دیا گیا۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |