پٹیل برادری کی تحریک اور سنگھ کی سوچ، کیا دونوں میں کوئی تعلق ہے؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
ریاست گجرات میں 25اگست کو ہاردک پٹیل کی ریزرویشن تحریک اور پٹیل برادری کی پوری طرح حمایت نے جہاں ریاست کے سیاسی درجہ حرارت کو بڑھادیا وہاں پورے ملک کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک کی ایک ایسی برادری جس نے زراعت سے لیکر تجارت تک سبھی شعبوں میں اپنی بادشاہت قائم کررکھی ہے وہ احتجاج کرتی ہے اور احتجاج بھی ریزرویشن میں اپنا حصہ مانگنے کے لیے کررہی ہے۔ اس سے ریزرویشن کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جن طبقات کو ریزرویشن ملا ہے وہ صرف تعلیمی اور اقتصادی میدان میں ہی آگے نہیں بڑھے ہیں بلکہ اس سے زیادہ ان کی پہونچ اقتدار کے گلیارے تک ہوئی ہے۔ حکومت کے فیصلوں میں ان کا رول نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ سوال فطری طور پر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا یہ تحریک ان دو وجوہات کی وجہ سے شروع کی گئی ہے یا اس کے پیچھے بڑے عزائم اور مقاصد ہیں۔ اس پر مختلف قسم کی تحریریں، تجزیہ اور بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری ہے اور 8ستمبر کو پاٹل برادری کی خواتین نے بھی ریزرویشن کے حق میں اپنی تحریک شروع کی جہاں لاٹھی بھی اٹھائی گئی اور پولیس ایکشن میں بھی آئی، اسی طرح ریزرویشن کو لیکر امریکا میں مقیم غیر مقیم ہندستانیوں میں بھی غصہ کم نہیں ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس ماہ کے آخیر میں امریکا جارہے ہیں۔ مودی جب گزشتہ سال وہاں گئے تھے تو وہاں میڈسن اسکوائر گارڈن میں این آر آئی نے جو روپیہ انھیں دیا تھا اسے واپس مانگنے کا اعلان کیا ہے۔ پاٹل برادری جو کہ پٹی دار کمیونٹی کے طور پر اپنی شاخت رکھتی ہے اور امریکا وآسٹریلیا میں بہت مضبوط ہے، ریزرویشن کے معاملے میں ہاردک پٹیل کی تحریک کے ساتھ ہے۔ 25اگست کو احمد آباد ریلی میں ہوئے پولیس تشدد سے بہت ناراض ہیں۔ وزیرا عظم کے امریکا دورے میں انھیں 5 ملین ڈالر دیاگیا تھا جس میں سے تین ملین کی رقم پٹیلوں نے دی تھی۔ پٹیل برادری اس 3ملین کی رقم واپس مانگیں گے۔ عیاں رہے کہ 2014کے لوک سبھا الیکشن میں پٹیل برادری پوری طرح بی جے پی اور نریندر مودی کے ساتھ تھی۔ لیکن اب وہ اس سے دور ہورہی ہے اور امریکی دورے کے دوران وزیر اعظم کے خلاف زبردست احتجاج کی تیاری ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پٹیل برادری کے موقف میں یہ تبدیلی کیوں ہوری ہے؟ ریزرویشن کا مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے اور نریندر مودی کو جو حمایت گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ملی تھی، اس کی مخالفت ہورہی ہے، کیا یہ آر ایس ایس کا بنایا ہوا ایجنڈہ ہے جس کے تحت آر ایس ایس پٹیل برادری ودیگربیک ورڈ کلاس میں اس دوری کو بڑھاتے ہوئے ان کار د عمل بڑھانا چاہتا ہے یا نریندر مودی وزیر اعظم بننے کے بعد طاقت کے نشہ میں آر ایس ایس کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں یا بی جے پی کے اہم ترین لیڈروں اور وزارتیں بنام مودی چل رہا تھا وہ بھی آر ایس ایس کے دربار میں گوہار لگاتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے پروگرام میں کئی وزراء اور خود مودی جی اپنی وفاداری پیش کرنے گئے اور اپنی کارگزاری سنگھ سنچالک کے سامنے پیش کی۔ اس پر انھیں شاباشی بھی ملی اور سر ٹیفکیٹ بھی کہ کام کرتے چلو ابھی 3189 سال کا عرصہ باقی ہے۔ آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ان سوالوں کے تناظر میں گجرات ریزرویشن کی تحریک اور اس سے پیدا ہوئے سوالات کے جوابات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات یقیناًحیرت میں ڈالنے والی ہے کہ 22سالہ نوجوان کسی تنظیمی تجربے سے گزرے بغیر ماضی کا کوئی ایسا رکارڈ بھی نظر نہیں آرہا ہے جس سے اس کی صلاحیتوں کا اظہار ہوسکے۔ وہ برادری جو اپنے کاروباری مزاج اور اپنی حکمت عملی کے لیے ایک شناخت رکھتی ہے جس طرح کھل کر ریزرویشن تحریک کے حق میں سامنے آئی اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پٹیل برادری جو سیاست کو بلاواسطہ کنٹرول بھی کرتی ہے کیا اعلیٰ تعلیم اور آئی اے ایس کیڈر میں اس کی کمی ہوگئی ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے ریزرویشن کا فائدہ دوسرے کو ملتا دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ سے ان طبقات کی تعلیم اور سول سروسیز میں نمائندگی بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا جب 26جنوری 1950کو دستور نافذ ہوا تو اس وقت ریزرویشن 10سال کے لیے فراہم کیا گیا تھا اورآج جبکہ ملک 7ویں دہائی میں داخل ہوچکا ہے تو یہ ریزرویشن نہ صرف اپنی جگہ برقرار ہے بلکہ اس میں Extension(اضافہ) ہوتارہا ہے اور مسلمان ودیگر کمزور طبقات کی طرف سے بھی یہ مانگ بڑھتی رہی ہے۔ اس ریزرویشن کے نتیجہ میں بیک ورڈ اور دلت وغیرہ کا سیاسی ایمپاور ہوا اور بیوروکریسی میں بھی ان کی تعداد بڑھی، تعلیمی میدان میں بھی کامیابی حاصل کی حتی کہ چھوٹی صنعتوں میں بھی اپنے وجود کا احساس دلارہے ہیں۔ ان طبقات کی یہ پیش قدمی آر ایس ایس کے لیے خطرے کی گھنٹی تو نہیں ہے اور اس کے منواسمرتی کے راستے میں رکاوٹ تو نہیں بن رہی ہے۔ آر ایس ایس کے آشیرواد سے چلنے والا مرکزی اقتدار چاہے وہ سیاسی سطح کا ہو یا تعلیمی مرحلے کا، وہ خطرے میں گھومتا تو نظر نہیں آرہا ہے۔ کیا اس موقع کو ہاردک پٹیل کے ذریعہ شروع کی گئی ریزرویشن تحریک کے تناظر میں بحث ومباحثہ کا ذریعہ بنانے میں مدد نہیں مل سکتی کہ ریزرویشن کی ضرورت ہے یا پھر ریزرویشن کو ختم کردیا جائے، کیونکہ ریزرویشن سے ان کے کریمی لیئر کو ہی فائدہ پہونچ رہا ہے۔ دلت اور مہادلت کی تعلیمی اور اقتصادی حالت میں کوئی سدھار نہیں ہورہا ہے تو ایسے ریزرویشن کو کیوں نہیں ختم کردیا جائے تاکہ جو مسلمان بیک ورڈ کلاس سے ریزرویشن کا فائدہ اٹھاتے ہیں انھیں اس موقع کا فائدہ پہونچنے نہیں دینا ہے کیونکہ براہ راست دلت اور بیک ورڈ کا حصہ روک نہیں سکتے اس لیے اس طریقے کو اختیار کرکے ان کے حصہ کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ آر ایس ایس ایسی غلطی نہیں کرے گا کہ ریزرویشن کومکمل طور پر ختم کرادیا جائے کیونکہ ہندستان میں ریزرویشن کے حوالے سے جو پس منظر ہے اس میں یہ بات شامل ہے کہ انھیں انسانی زندگی کا وقار حاصل نہیں تھا اور اسی لیے آئین سازوں نے آئین بناتے وقت اس پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ ان معماروں کا کہنا تھا کہ انسانی وقار اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک اسے سماجی اونچائی پر نہ لے جایا جائے۔ اس تاریخی پس منظر میں ریزرویشن دیا گیا اور اس میں اضافہ ہوتا رہا اس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے جبکہ آر ایس ایس کی فلاسفی ماننے والے افراد بالفاظ دگر برہمنوں کی تعداد کم ہے۔ اگر یہ لوگ بااختیار ہوگئے اور فیصلوں میں اہم کڑی نبھانے والے ہوگئے، دستور سازی اور قانون سازی میں اہم رول ادا کرنے والے ہوگئے۔ خرید وفروخت اور استحصال سے محفوظ ہونے لگے تو دستور کی روح اور افرمیٹیو ایکشن کے ذریعہ ملک کی ترقی شروع ہوجائے گی تو کہیں اس ترقی کو روکنے کا یہ کوئی قدم تو نہیں ہے۔ کیا ان لوگوں کو مسلمان اور دیگر اقلیتوں کا خوف دلاکر مثبت طریقے سے مستقبل بعیدمیں انہی لوگوں تک فائدہ پہونچانے یا بھٹکانے کی کوشش تو نہیں ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ کمزور طبقات کو بھی نہیں ہوگا۔
میڈیا جوغیر تحریری طور پر ہمارے دستور، روایت اور قانون کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے اور یہ ستون ڈیموکریسی کا محافظ مانا جاتا ہے اس کو محفوظ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ مانا جاتا ہے، انصاف کے راستہ کو ہموارکرنے والا مانا جاتا ہے،کمزوروں کی آواز مانی جاتی ہے۔ سچ کو سچ، جھوٹ کو جھوٹ بتا کر پانی کو پانی کرنے والا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ہتھیار اب کند ہوگیا اور اس ہتھیار کا استعمال جمہوریت کو بچانے، دستور کی حفاظت، قانون کو بلند کررکھنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسے سنگٹھن کی فکر کو پروان چڑھانے جو سماج کے تانے بانے کو توڑنے اور نفرت پھیلانے والوں کے مقاصد کو پورا کرنے میں مددگار نظر آرہا ہے۔ کیا اتنی بڑی تبدیلی خود بخود آگئی ہے یا اصولوں کا سودا ہوا ہے، جب اصولوں کا سودا ہوتا ہے تو کمزور ،کمزور ہوتا ہے، مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے اور سرمایہ دار کے مفاد میں کام کیا جاتا ہے۔ کبھی عوام الناس اس پر غور نہیں کرتی کہ یہ تبدیلی ملک اور اس کے دستور، قانون، ملک میں رہنے والے سماج اور اس کے تانے بانے کے خلاف ہے اور بالآخر فائدہ اسے ہوگا جو ڈور پیچھے سے ہلارہے ہیں، جو ملک کے اندر انصاف اور برابری کا بول بالا نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ یہ دونوں چیزیں انصاف، برابری اور محدود سوچ رکھنے والے اور نسلی برتری پر یقین رکھنے والوں کے خلاف ہے، کیا وہ اسے آسانی سے قبول کریں گے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہندستانی جو سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں اور اپنے دستور کو بہتر انداز میں زندگی گزارنے کا ایک ذریعہ بھی سمجھتے ہیں وہ ملک کے مفاد کے خلاف کام کرنے والوں کی سازش کو بھی سمجھیں ورنہ جو وقت پر چوک جاتا ہے اسے پھر دوبارہ موقع نہیں ملتا ہے۔ یہ نازک وقت ہے، اچھی سوچ والے، انصاف پسند، برابری پر یقین رکھنے والے، بھائی چارگی کو پھیلانے والے او رملک کو مہان بنانے والے قانون کی بالادستی اور سیکولرازم کو پروان چڑھانے والے ان تمام پہلوؤں پر غور کریں اور ملک کو سنوارنے میں صرف تماش بین نہ رہیں بلکہ ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملاکر ملک کو بچانے کی کوشش کریں۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home