ملک کے بدلتے حالات میں ہندستانیوں کی ذمہ داری؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہمارا ملک ہندستان تہذیبوں کا گلدستہ ہے۔ اس گلدستہ کے حسن کو باقی رکھنے اور اس کے انواع واقسام کے پھولوں کو تحفظ دینے، اس کے ارتقاء کے لیے ماحول بنانے اور اسے مضبوط رکھنے کے لیے آئین ہند نے افر میٹیو ایکشن(Affirmative action)کے ذریعہ تمام پہلوؤں کو دستور کے اندر سمویا ہے،مگر بدنصیبی سے دستور کی یہ اعلیٰ وارفع مقاصد دنیا کے نقشہ میں ایک نمونہ بننے کی صلاحیت، ایک عظیم الشان جمہوریت میں کثرت میں وحدت کی روح کمزور ہوتی چلی جارہی ہے۔ دستور میں انصاف کو ایک اہم ستون کے طور پر رکھا گیا ہے اور اسے بروئے کار لانے کے لیے دستور کے اندر بہت سی گنجائش نکالی گئیں اور اسی سے نظام عدلیہ ایک طاقتور ادارے کے طور پر قائم ہوئی۔ قانون سازی کا کام کیا گیا لیکن اس کا استعمال غیر جانبداری کے بجائے جانبداری سے کیا جانے لگا۔ قانون بھید بھاؤ کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے، تعصب کے طور پر اس کا استعمال ہورہا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کے درمیان امتیاز بڑھتا جارہا ہے۔ تحقیقی ادارے کمزور اور دلت وآدی واسیوں کے خلاف بالعموم اور مسلمانوں کے خلاف بالخصوص تفریق کا شکار ہورہے ہیں۔ اس میں سے کچھ اپنے ضمیر کی بلندی کی وجہ سے اس تعصب کا شکار نہیں ہورہے ہیں۔ اس تنگ نظری اور تعصب کے نتیجہ میں کمزوروں، مزدوروں، آدی واسیوں اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کردہ اور ناکردہ جرم کے تحت جیل کی کوٹھریوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہی ہے اور تحقیقی ایجنسیاں خواہ پولیس ہو یا دیگر جا نچ ایجنسی وہ بڑی آسانی سے ملک میں کسی طرح کی بدامنی، تشدد، نام نہاد دہشت گردی کے معاملے میں بلا تاخیر خاص طور سے مسلمانوں کو ملزم بناکر کٹہرے میں ڈال دیتی ہیں۔ انھیں اس پر تامل نہیں ہوتا کہ ثبوت ہے یا نہیں۔ مسلمان بالعموم اور مسلمانوں کی کچھ تنظیموں کو بالخصوص آئی کون (icon)بنادیا ہے اور جیسے ہی دہشت گردی کی کوئی خبر آتی ہے۔ خبر کے دوسرے سانس میں ہماری ایجنسی کو تامل نہیں ہوتا کہ مسلمانوں کا نام یا iconکا نام پیش کر کے مسلمانوں کی گردن کو پھنسادے۔ جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ان فسادات میں جو مجرم ہوتے ہیں انھیں آزادی ملتی ہے جو دفاع کرتے ہیں انھیں سزا ملتی ہے خواہ مسجدوں کے اندر ناپاک چیزوں کو ڈالنے کی بات ہو یا ان کی دیوار کو توڑ کر مورتی لگانے کی بات ہو، مسجد کی تعمیر کو روکنے اور توڑنے کی بات ہو مسلمانوں کے دیگر شعائر اسلام کو مسمار کرنے کی بات ہو، مسجدوں کے اندر بم پھٹنے کا مسئلہ ہو ان سارے معاملوں میں مورد الزام عموماً مسلمانوں کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے، ان کی ہی گرفتاریاں ہوتی ہیں اور مسلمانوں کو اپنی قیمتی زندگی کے سال جیل کے اندر گزارنا پڑتے ہیں۔
جہاں تک انصاف کا تعلق ہے۔ انصاف ایک طرف بہت ہی مہنگا ہوچکا ہے۔ اچھے وکیلوں کی خدمات کو حاصل کرنا کمزور لوگوں بالعموم اور مسلمان بالخصوص اتنی مالی استطاعت نہیں رکھتے کہ وہ اچھے اور مہنگے وکلاء کی خدمات کو حاصل کرسکیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انصاف اس وقت تک صحیح نہیں مل سکتا جب تک جانچ کرنے والی ایجنسیاں، سرکاری عملے اور پولیس انصاف پسند نہ ہو مگر یہاں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اس لیے انصاف آسانی سے نہیں ملتا، انصاف کے راستے مسدود ہیں، انصاف تک پہونچنے کے راستے متعصب ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو قصور کے بغیر سزا ملتی ہے۔ پھر بھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ذہین اور انصاف پسند جج ان ساری دشواریوں کے باوجود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی فیصلے کے ذریعہ پیش کرتے ہیں۔ جو یقینی طور پر قابل تعریف بھی ہے اور انصاف کا سربلند بھی ہوتا ہے مگر وہاں بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں ایسے فیصلے بھی آتے ہیں جو حوصلہ شکن ہوتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خون، خون میں فرق ہے، گردن، گردن میں فرق ہے اور ان کی قیمت بھی الگ الگ ہے۔ اس کی وجہ قانون کے رکھوالوں اور ایجنسیوں کے تعصب کا اظہار ہے۔
ہمارے ملک کے دستور نے ہندستان کے ہر شہری کو کثرت میں وحدت کو مضبوط کرنے کے لیے مکمل اعتماد دلایا ہے لیکن اس کثرت میں وحدت کو جو قوت دستور نے بخشی ہے اسے ختم کرنے کی سرکاری سطح سے ہر ممکن کوشش ہورہی ہے خواہ اس کا کھانا پینا ہو، رہنے سہنے کا سلیقہ ہو، لباس پہننے کا معاملہ ہو، زبان کا تعلق ہو، اپنی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے اس کو دستور کی روشنی میں بڑھانے کا معاملہ ہو، اسے نت نئے طریقے سے کہیں خوف وہراس کے ذریعہ کہیں تعصب کے ذریعہ کہیں برہمن واد کی بالادستی کے ذریعہ، کہیں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی دادا گیری کے نتیجہ میں کہیں چھوٹے پیمانے پر کہیں بڑی تعداد میں فسادات کے ذریعہ کہیں ان کی مذہبی کتابوں پر حملے کے ذریعہ کہیں مدارس پر حملے کے ذریعہ اور کہیں مختلف قوموں کو ٹکراؤ کے ذریعہ دستور کی اس روح جس کثرت میں وحدت پر زور ہے کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے۔ جہاں حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان سارے ایشوز اور حالات پر نہ صرف قابو پائے بلکہ ایسے تمام عناصر کو قابو میں لائے، قانون کی بالادستی کے ذریعہ ان پر ایکشن لیا جائے اور سب کو برابری کا موقع فراہم کیا جائے۔ حکومتیں خاموش تماش بین کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں تاکہ ان عناصر کو اپنا کام کرنے کی اجازت رہے یا ان عناصر کو تقویت ملے اور کمزور طبقات، دلت آدی واسی اور خاص کر مسلمان مایوسی کے دلدل میں پھنستا جائے۔ خوف وہراس اس کے اندر غالب ہونے لگے اور قانون ودستور پر اعتماد ٹوٹنے لگے۔
آئین ہند یہ آزادی دیتا ہے کہ کوئی بھی شہری اپنی آزادی سے اپنی رائے رکھ سکتا ہے یا اس پر قائم رہ سکتا ہے یا اپنی مرضی کی طرز زندگی کو گزار سکتا ہے اور اپنی مرضی کے عقیدے کو اختیار کرسکتا ہے۔ کسی خوف وہراس یا لالچ کے ذریعہ آزادی کو سلب نہیں کرسکتا اور اپنی اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کو ساتھ لے سکتا ہے اور آزادی کو پروان چڑھانے کے لیے ان رکاوٹوں جو حکومت، سماج یا ان عناصر کی طرف سے اثر انداز ہیں، راہ میں حائل ہورہی ہیں۔ مگر کمزور طبقات، دلت، آدی واسی بالعموم اقلیات اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف یہ ماحول بنایا جارہا ہے کہ ظلم وزیادتی کو برداشت کرو۔ اپنے احساس کو چھپاکر رکھو، اس کے خلاف آواز نہ اٹھاؤ اگر اٹھاتے بھی ہو تو پولیس کے تعصب اور اس کے ذریعہ مختلف الزامات کا شکار ہوسکتے ہو اور اگر کسی نے یا کچھ لوگوں نے اپنی قوت ارادی سے اپنی مرضی کے مطابق کسی دوسرے عقیدہ کو اختیار کرلیا تو اس پر پولیس کی لاٹھیاں برس سکتی ہیں اور تعزیرات ہند کے تحت اس کو سزا بھی ہوسکتی ہے۔
جہاں آئین ہند بھائی چارگی کی بات کرتا ہے اور اسے بڑھانے کے لیے دستور میں ہر طرح کی گنجائش بناتا ہے وہاں کمزورطبقات اور مسلمان سبھی کو بھائی سمجھتا ہے۔ وہاں برہمن واد ان لوگوں کو صرف ’چارہ‘ سمجھتا ہے جس کے نتیجہ میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں دستور میں برابری کو دیباچہ میں شامل کیے جانے کو اپنے لیے خطرناک سمجھ کر ہر وہ قدم اٹھارہی ہیں جو دستور کی روح کو زخمی کرے اورماحول کو زہر آلود کرے۔ بھائی چارگی کے لیے ضروری ہے کہ ماحول زہر آلود نہ ہو، ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں، مدد کرنے کا جذبہ ہو، مل جل کر رہنے کا سلیقہ ہو مگر دلتوں، آدی واسیوں اور مسلمانوں کو برہمنوں کی بستیوں میں اور اعلیٰ ذات کے علاقے میں نہ صرف یہ کہ رہنے کی اجازت نہیں بلکہ اگر ان لوگوں میں سے کسی نے رہنے کے لیے اپنا مکان خرید لیا تو اس کی زندگی تنگ کردی جاتی ہے۔ ان کے گھروں پر تالے لگ جاتے ہیں اور عموماً ان لوگوں کو کالونی میں بھی مکان دینے سے انکار کردیاجاتا ہے۔
آئین ہند نے بنیادی حقوق کے تحت تعلیم، صحت اور اقتصادیات کو سماج کی روح کے طور پر گردانا ہے، اس کے بغیر سماج ترقی نہیں کرسکتا، اس کے بغیر مضبوط سماج نہیں بن سکتا۔ اس کے بغیر انسانیت باقی نہیں رہ سکتی۔ اس کے بغیر انسان کا وقار برقرار نہیں رہ سکتا اور دنیا میں اپنا مقام نہیں بناسکتا۔ ان تینوں چیزوں کو بڑھانے کے لیے دستور اور قانون نے کئی اہم قوانین وضع کیے اور اس کے لیے ہمیشہ بجٹ کے اندر خاص حصہ رکھا جاتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے اندر بڑا مقام پیدا کرسکیں۔ ہر ایک عقیدہ رکھنے والوں کو اپنی انفرادیت تعلیم کے ذریعہ مضبوط کرنے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ عورتیں اور بچے جو کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں ان کو آگے بڑھانے، ملک کو ترقی دینے، ملک کی باگ ڈور دینے میں عورتوں اور بچوں کا اہم ترین رول ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ان میدان میں بجٹ کم کردیا گیا جس کے نتیجہ میں کمزوروں، آدی واسیوں اور اقلیتوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کھڑی ہوگئیں۔ جو تعلیم سائنس اور ٹکنالوجی کو بڑھانے اور دنیامیں ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے پر زور ڈالتی ہے، بدنصیبی سے آج اندھ وشواش اور روایات پر زور ڈالا جارہا ہے جس کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں بلکہ ایک تصوراتی ہے۔ دنیا میں جو تبدیلیاں تعلیم کی معرفت سائنس اور ٹکنالوجی کے ذریعہ ہورہی ہیں وہ تاریخ بنتی جارہی ہیں۔ ہماری آبادی کی اکثریت کسانوں،مزدوروں اور دیہاتوں پر مشتمل ہے اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔ مہنگائی ہر دن بڑھتی جارہی ہے۔ بیروزگاری منھ کھول کر انسان کو کھارہی ہے، کسانوں کی زمین سرمایہ داروں کے لیے آسان بنائی جارہی ہے اور کارپوریٹ ورلڈ کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ دولت ان کے ہاتھوں میں سمٹتی جارہی ہے اور عام انسان غلامی کے شکنجہ میں دھیرے دھیرے کستا ہوا نظر آرہا ہے جس کے نتیجہ میں خود کشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے کسانوں کو بینک سے قرض لینے اور اس کے ادانہ کرنے پر اس کے خلاف سخت قدم اٹھایا جاتا ہے مگر دولت مندوں کو بینک لون کروڑ ہا کروڑ دیے جانے کے بعد بھی ان پر سزائیں کم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عام انسانوں، مزدوروں، کسانوں اور کمزوروں کی زندگی مزید پریشانیوں کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے۔
ان حالات میں ہندستان کے سارے شہریوں خواہ دلت، آدی واسی، اقلیات یا مسلمان ہوں، ساؤتھ کے رہنے والے ہوں یا نارتھ کے، مشرق کے ہوں یا مغرب کے ان کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے آبا ؤ اجداد نے جس عظیم الشان قربانی دلاکر ایک آزاد ہندستان قائم کیا اور اچھی حکومت چلانے کے لیے دستور دیا۔ دستور کے ذریعہ اچھے اچھے قوانین وجو دمیں آئے، کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ دستور کی حفاظت کریں اور اس کے ذریعہ بنائے گئے جو قوانین ہیں ان کو صحیح ڈھنگ سے تنفیذ کرانے کی کوشش کریں۔ جس حکومت کو ہم نے اس کے اچھے وعدے، اچھے دنوں کو دیکھنے، مختصر حکومت کثیر حکمرانی، سب کا ساتھ سب کا وکاس، کے دعویٰ اور دستیابی وغیرہ پر اعتماد کیا۔ کیا ہم ہندستانی بغیر کسی تعصب اورکسی حمایت کے بغیر نہیں دیکھ سکتے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور کیا انہی دنوں کے لیے انہی حالات میں زندگی گزارنے کے لیے مزید مشکلات سے دوچار ہونے، سیکولر تانے بانے کو توڑنے اور ایک دوسرے کی زندگی کو تنگ کرنے،مذاہب اور اس کے شعائر پر حملہ کرنے کے لیے یہ حکومت بنائی گئی ہے، یا ہمارا دیش مہان ہو، آدرش کی زندگی گزاری جائے اور دنیا کے نقشہ پر ایک بہترین نمونہ کی شکل میں ابھرے۔ کوئی ہمیں آزادی اور مل جل کر رہنے کا درس دینے کے لیے نہ آئے۔ ہم ہندستانیوں کو اپنے ملک کے بارے میں سوچنا ضروری ہے کہ جو لوگ منواسمرتی کے قانون پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس سمت تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں، کیا ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں، کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ دستور کے الفاظ اور اس کی اسپرٹ کو باقی رکھنے کے لیے جدوجہد کریں؟
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home