رمضان کا تدبر کیا مسلم قیادت کو نئی سوچ وفکر پر ابھارے گا؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
غمگساری، احتساب، صلہ رحمی، حقوق کی ادائیگی، غریبوں سے ہمدردی، ایمانی کیفیت میں حرارت پیدا کرنے اور اولاد کی تربیت، ایک دوسرے کو معافی اور درگزر کے ساتھ فراست ایمانی کو بڑھانے کے سلسلے میں یقینی طور پر پورے دنیا کے مسلمانوں بالعموم اور ہندوستانی مسلمانوں نے بالخصوص رمضان المبارک سے استفادہ کیا ہو گا اور عید کی خوشیوں میں ایک دوسرے کو شریک کرنے ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور ایک دوسرے سے گلہ شکوہ دور کرنے کا موقع بھی ملا ہو گا۔ اب عام زندگی میں ہر مسلمان مشغول ہونا شروع ہو چکا ہے، شیطان بھی جو بندھا ہوا تھا اسے آزادی مل چکی ہے اس کے تیور بہت تیز ہونے کا امکان ہے اور تیور میں مسلمان سے بدلہ لینے، آپسی اختلافات کو بڑھاوا دینے، لڑائی جھگڑا پیدا کرنے، بھائی بھائی کو جدا کرنے کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ اگر ہم نے اپنی تربیت قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریمﷺ کے اسوہ میں تلاش کی تو انشاء اللہ فلاح ملے گی، کیونکہ انسان کے اندر ظاہری اور باطنی طور سے خیروشر کی جو کشمکش ہے اسے خود اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے اور دونوں کو طاقت بھی دی ہے جس کے مظاہر اکثر وبیشتر سامنے آتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں تربیت حاصل کر کے ہی ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جہاں سبھی شعبہ حیات کے ماہرین کو اس شعبہ حیات کے اندر مسلمانوں کی بھلائی، انسانوں کی بھلائی، انسانوں کی بہتری کے لیے سوچنے سمجھنے، تفکروتدبر کرنے کا موقع ملا۔ جمہوری ملک میں جمہوریت کے خدوخال اس سے جڑے ہوئے مختلف اجزاء ومسائل ہر شہری سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ دانشوران، علماء کرام اور بالخصوص سیاستداں کو ملک کی موجودہ صورتحال پر غور وخوض کرنے کا موقع ملا ہو گا۔ یہ وہ ایشوز ہیں جس میں ملک کی ترقی، اس کے نظام، قانون اور ملک میں امن وامان کیسے قائم رہے، یہ سبھی کے سامنے نہ صرف بہت اہم ترین سوال ہے بلکہ بڑے پیمانے پر چیلنج کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے اور بالعموم کمزور طبقوں، آدی واسیوں، دلتوں، اقلیتوں اور مسلمانوں بالخصوص کی جان ومال، عزت وآبرو، اس کی شناخت اور اس کے شعائر اسلام پر ہر دن نت نئے انداز سے الزام تراشیاں بھی ہوتی ہیں، گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں، شکوک وشبہات میں اسے زدوکوب کیا جاتا ہے حتی کہ گائے کا گوبر بھی زبردستی کھلایا جا رہا ہے اور کچھ ایسا ماحول بنا ہوا ہے جس میں دہشت پھیلی ہوئی ہے، کرتا کوئی ہے بھگتتا مسلمان ہے۔ دانشوروں سے لیکر آر ایس ایس کے عام کارکن اور اس کے فلسفہ سے تعلق رکھنے والے منتری ہوں یا سنتری، طلباء ہوںیا طالبات، مزدور ہوں یا کسان سبھی اسی لہجے میں بولتے نظر آرہے ہیں۔ سبھی میں یکجہتی نظر آرہی ہے اور مشترکہ دشمن کے طور پر مسلمانوں کو پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی ساری قربانیوں کو بھلانے کی کوشش کی جارہی ہے، ان کی تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، انہیں سیاست سے عملی طور پر بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسے ملک کے مین اسٹریم خواہ وہ تعلیم، اقتصادیات یا ترقی ہو، سے کنارے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسے موقع پر مسلم دانشوروں، علماء کرام اور بالخصوص سیاستدانوں کو ایک اچھا موقع اللہ تبارک وتعالیٰ نے مقرر کردہ مہینہ جو رمضان کہلاتا ہے، فراہم کیا ہے۔ تعلیمی، اقتصادی اور سماجی میل جول کے ایشوز پر انشاء اللہ آئندہ کبھی مضمون لکھنے کی کوشش کی جائے، اس وقت ہم سیاسی صورتحال کو اس پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اکثر وبیشتر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلم سیاستداں جب کسی سیاسی پارٹی سے جڑے ہوتے ہیں تو اس پارٹی سے وابستگی، وفاداری اور اس کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ ملت کے مسائل، ملت کی صورتحال اور ملت کے درد کے لیے ان کی زبان سے کوئی ہمدردی کے الفاظ بھی ساتھ نہیں دے پاتے اور جب وہ پارٹیاں ان لوگوں کا استعمال کر لیتی ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے سلسلے میں اکثر وبیشتر استعمال کرو اور پھینکو کی پالیسی پر عمل کرتی ہیں، اس کے بعد وہ تمام حضرات ملت کی دہائیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ بہت سے لوگ جو سیاسی رجحان رکھتے ہیں انہیں ان سیاسی پارٹیوں میں ان کی کوششوں کے باوجود کوئی نمائندگی نہیں ملتی، وہ لوگ بھی مذکورہ بالا افراد کے ساتھ ہمدردی اور شمولیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح مختلف تنظیمیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ جتنے بھی مسلم نمائندے ہیں خواہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی میں ہوں بالخصوص نام نہاد سیاسی پارٹیوں میں ہوں، ملت کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ پارلیمنٹ کی بحث میں بھی کچھ کو چھوڑ کر زیادہ تر نے حصہ نہیں لیا، تو کیا اس کام کے لیے ایک الگ سے مسلمانوں کی سیاسی پارٹی ہونی چاہیے اور وہ سیاسی پارٹی کوئی چمتکار ضرور دکھائے گی اور مسلمانوں کے مسائل جادو کی چھڑی سے حل ہو جائیں گے اور پھر اس کے نتیجہ میں مختلف ناموں سے مسلمانوں کی سیاسی پارٹیاں بننا شروع ہو جاتی ہیں اور جب کبھی ریاستی سطح پر مسلم سیاسی پارٹی ایک دو کو چھوڑ کر بڑی کامیابی مل جاتی ہے تو وہاں فوراً بھائی بھتیجہ واد کا مزاج بننے لگتا ہے، پریوار واد بڑھنے لگتا ہے اور حکمت عملی کی جگہ جذباتیت غالب ہونے لگتی ہے جس کے نتیجہ میں ہندوستان کا میڈیا عام طور پر الیکٹرانک چینل جو کہ متعصب بھی ہے حقیقت کو پیش کرنے سے دور بھاگتا ہے مسلمانوں کے صحیح ایشوز نہ صرف فوکس نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے کمزور حصوں کو تلاش کر کے پیش کرتا ہے۔ جب اس طرح کی شعلہ بیانی ہوتی ہے تو وہ آگ میں گھی کا کام کرتی ہے۔ یہ سارے وہ ایشوز ہیں جس پر یقینی طور سے مسلم سیاسی قائدین نے گزرے ماہ مبارک میں ضرور کچھ سوچا ہو گا۔ ہم اس سلسلے میں کچھ باتیں ان لوگوں کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔
2017 کے یوپی الیکشن کے تناظر میں ملک کے ماحول کو بگاڑنے کے لیے آر ایس ایس اور ان کی بنائی مختلف تنظیمیں پورے زور وشور سے ملک کے اندر بالخصوص مسلمانوں، دلتوں، آدی واسیوں اور کمزور طبقات کے خلاف ماحول کو زہرآلود بناتی جا رہی ہیں۔ یہ زہر سماج کے خواہ تعلیمی میدان، سماجی، اقتصادی، آپس میں رہن سہن، مذہبی شناخت، کھڑے پہننے کا انداز، بودوباش یا شعائر ہوں ہر ایک کو نشانہ بنا کر اس میں سرایت کیا جا رہا ہے۔ اس زہر کو پھیلانے میں میڈیا خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا بہت ہی منفی رول ادا کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اس پہلو پر مسلمانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ جہاں سے یہ سارے پلان کے ساتھ عام شہریوں کو مغالطے میں اور ان کی مخالف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا ان کے سدباب کے لیے ٹھوس پلان تیار کیا جا سکتا ہے اور اس ٹھوس پلان کو یہ سیاسی قائدین اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کے بجائے عام شہریوں سے ملنے خواہ کسی مذہب، رنگ، نسل خواہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہوں، دلت ہوں، آدی واسی ہوں، کمزور طبقات ہوں کھلے ذہن کے دانشوران ہوں سیکولر قدروں کو ماننے والے دانشوران ہوں، طلباء وطالبات ہوں یا مرد وعورت ہوں سب سے مل کر دستور کی اہمیت، قانون کی افادیت، آزادی حاصل کرنے میں مختلف مذاہب اور قوموں کی قربانی کو بتایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل نکات پیش ہیں:
۱۔ کیا بہار اور مغربی بنگال کے الیکشن سے سبق لینے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ مسلم سیاسی پارٹیوں کو ہوا دینے کے بجائے مسلمانوں کو اپنے ووٹ ملک کے آئین کے تحت دی گئی گارنٹی اور اس میں Affirmative Action کو بڑھانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس سے واقف کرانے اور ان لوگوں کے ساتھ تال میل بڑھانے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں یا صرف کہیں راجیہ سبھا، کہیں ٹکٹ یا کہیں اپنی آل اولاد بڑھانے کی کوشش رہے گی۔
۲۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پورے ملک میں امن کا ماحول بنانے کے لیے وہ غیر مسلم قائدین خواہ سیاسی ہوں، سماجی یا مذہبی کو ساتھ لے کر پورے ملک میں یہ آواز دی جائے کہ دستور سبھی کو خوشحال بنانا چاہتا ہے، سبھی کو آزادی کی گارنٹی دیتا ہے، سبھی کو ملک کی ترقی کے لیے آواز دیتا ہے۔ کسی ایک نظریہ کو تھوپنے کی بات نہیں کرتا ہے اور وہ امن جو ملک کے کمزور طبقات، دلتوں، آدی واسیوں، اقلیتوں اور مسلمانوں کے لیے بھی مفید ہے کیا ہم اس قربانی کے لیے تیار ہیں۔
۳۔ کیا ہم ان نوجوانوں کو جن کے اندر سیاسی سوجھ بوجھ نظر آتی ہے انہیں صحیح طور پر تربیت، دستور کی روشنی میں ترغیب، اسلام کی تعلیم کی روشنی میں انسانوں کے لیے قربانی، انسانیت کو فروغ دینے کے لیے تیار ہیں جہاں خود کو پیچھے رہتے ہوئے ان نوجوانوں کو سیاسی تربیت دیکر آگے بڑھانے کی بات کی جا سکتی ہے اور ان لوگوں کو بھی تربیت دینے کے لیے میدان میں اتارا جا سکتا ہے۔
۴۔ کیا اس بات کی کوشش نہیں ہو سکتی کہ ایک سیاسی فورم قائم ہو جو کسی بھی تنظیم کے اپنے کریڈٹ کے لیے بلکہ سیاست پر اثر ڈالنے کے لیے سیاست میں اپنا رول ادا کرے۔ مسلمانوں اور کمزور طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر لانے، آپسی اختلافات کو دور کرنے، دلتوں، آدی واسیوں کے مسئلہ کو سمجھنے اور مل جل کر سیاسی حکمت عملی بنانے اور ایک دوسرے پر اعتماد کا ماحول بنانے کے لیے تیار ہیں۔ مسئلہ کا حل اپنے اپنے دف بجانے سے نہیں ہو گا بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم اندر کمار گجرال کے ذریعہ پارلیمنٹ میں اس کال کے بعد کہ ہمیں دوسری جنگ آزادی کے لیے جد وجہد کرنا پڑے گی کی روشنی میں 1997 میں آل انڈیا ملی کونسل نے پورے ملک میں ’’کاروانِ آزادی‘‘ نکالا اور دستور کے پیغام کو عام کیا۔ آج بھی دوسری جنگ آزادی مہم کی طرح تعصب مٹانے، نفرت ہٹانے، ترقی میں سبھی کو ساتھ لینے، دستور کی عظمت کو برقرار رکھنے، اپنی اپنی آزادی کو محفوظ کرنے اور تعلیم واقتصاد میں اس ملک کے شہریوں کو حقوق دلانے کی کوشش کے لیے پہل کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہر ایک خواہ کسی آئیڈیالوجی، دھرم یا مذہب کے ماننے والے ہوں سب کے ساتھ اپنے ڈائیلاگ، ملاقات کا سلسلہ شروع کریں تو شاید ہمارے ملک کا دستور محفوظ رکھ سکے گا۔ ملک کا سماجی تانا بانا بھی محفوظ ہو سکے گا اور انسانوں کی طرح رہنے کی ترغیب دے سکیں گے۔ آئیڈیالوجی کے نام پر خون خرابہ روکا جا سکے گا۔ یہ وہ تمام پہلو ہیں جو سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے دانشور، علماء اور سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ اگر گزرے ماہ رمضان المبارک سے ہم نے یہ سبق لیا تو شاید خیر امت کا لقب پانے والی امت نظر آئیں گے۔ یہ وقت کا بڑا چیلنج ہے جسے امت مسلمہ بالعموم اور سماج کے کمزور طبقات، دلتوں، آدی واسیوں اور اقلیتوں کو بالخصوص اسے قبول کرنا چاہیے۔ ع ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں اور یہ ان کے اپنے ذاتی خیالات ہیں)




Back   Home