کیا
ہمارا
ملک
دوپارٹی
سسٹم
کی
طرف
بڑھ
رہا
ہے؟
ڈاکٹر
محمد
منظور
عالم
16ویں
لوک
سبھا
کے
انتخابات
نہ
صرف
بہت
اہمیت
کے
حامل
ہیں
بلکہ
ماضی
کے
لوک
سبھا
انتخابات
کے
مقابلے
کئی
لحاظ
سے
الگ
ہیں۔
اس
سے
قبل
بالخصوص
1977سے
لیکر
2009تک
جو
انتخابات
ہوئے
وہ
دستوری
تقاضے
کے
تحت
منعقد
ہوئے۔
اس
سے
جمہوری
جڑیں
مضبوط
ہوتی
گئیں
اور
دستور
کی
بالا
دستی
کو
قائم
کرنے
کا
امکان
بڑھتاگیا
لیکن
1999سے
اس
جمہوری
نظام
میں
شگاف
پڑنا
شروع
ہوگیا
جس
کے
نتیجہ
میں
نیشنل
ڈیمو
کریٹک
الائنس
(این
ڈے
اے)
وجود
میں
آیا۔یہ
این
ڈی
اے
آر
ایس
ایس
کے
اس
جذبہ
کی
تسکین
تھی
جس
میں
آزادی
کے
بعدسے
ہی
وہ
یہ
خواہش
رکھتی
تھی
کہ
اس
ملک
میں
دوپارٹی
سسٹم
قائم
ہو
اور
پارٹی
سسٹم
صدارتی
نظام
کے
تحت
ہو۔
اس
نظام
کی
بنیاد
آر
ایس
ایس
نے
ڈالی
اور
این
ڈی
اے
میں
مختلف
سیاسی
پارٹیاں
اٹل
بہاری
باجپئی
کے
مکھوٹے
سے
متاثر
ہوکر
آر
ایس
ایس
کے
ایجنڈہ
کو
بغیر
سمجھے
ہوئے
شامل
ہوگئیں
جس
کے
نتیجہ
میں
دوپارٹی
سسٹم
تو
قائم
نہیں
ہوا
لیکن
دو
دھڑے
این
ڈی
اے
اور
یونائٹیڈ
پروگریسیو
الائنس
(یو
پی
اے)
کی
شکل
میں
گروپ
کے
طور
پر
تشکیل
پاگئے۔
کیونکہ
آر
ایس
ایس
کا
پلان
یہ
ہے
کہ
یہاں
دو
پارٹی
سسٹم
قائم
ہو
اور
اس
میں
بھی
خاص
طور
سے
صدارتی
سسٹم
قائم
ہو۔
اس
کے
لئے
آر
ایس
ایس
نے
میڈیا
کے
سہارے
اپنے
خفیہ
ایجنڈہ
کو
اپنے
کیڈر
کے
ذریعہ
سینہ
بہ
سینہ
اور
تشہیر
کے
تمام
طریقے
چاہے
وہ
الیکٹرانک
میڈیا
ہو
یا
سوشل
میڈیا
ہو
یا
دیگر
سائنسی
آلات
ہوں
کا
استعمال
کرتے
ہوئے
ملک
کے
جمہوری
نظام
کو
بالائے
طاق
رکھتے
ہوئے
مودی
کو
وزیر
اعظم
کا
امیدوار
ڈیکلیئر
کردیا۔
مودی
کو
انتخابی
نتائج
سے
قبل
بطور
وزیرا
عظم
کے
امیدوار
ڈیکلیئر
کرنا
در
اصل
اسی
صدارتی
نظام
کے
ارادے
کا
مظہر
ہے۔
آر
ایس
ایس
نے
اس
کو
اختیار
کرکے
اس
پر
عملدر
آمد
شروع
کردیا
اور
آر
ایس
ایس
کے
سیاسی
پرزے
بی
جے
پی
میں
کسی
نے
بھی
مودی
کے
راستے
میں
رکاوٹ
بننے
کی
کوشش
کی
تو
اس
کو
دھول
چاٹنے
اور
کنارہ
کرنے
کے
اقدام
سے
بھی
پرہیز
نہیں
کیا۔
اس
کی
وجہ
سے
ملک
کا
دستور
جو
کہ
جمہوری
نظام
کا
ضامن
ہے،
خطرے
کے
دائرے
میں
آچکا
ہے۔
یہ
آر
ایس
ایس
کی
حکمت
عملی
کا
ہی
حصہ
تھی
کہ
اس
کے
ایجنڈہ
کو
پورا
کرنے
کے
لئے
اس
بات
کا
برملا
اعلان
کیا
گیا
کہ
رائے
دہندگان
بی
جے
پی
کو
نہیں
مودی
کو
ووٹ
دے
رہے
ہیں۔بی
جے
پی
صدر
راج
ناتھ
سنگھ
کے
ذریعہ
اب
کی
بار
بی
جے
پی
سرکار
کے
نعرے
کو
جس
طرح
اب
کی
بار
مودی
سرکار
سے
بدلا
گیا
ہے
اس
سے
یہ
بات
واضح
ہے
کہ
جس
طرح
مودی
کا
نام
لیا
گیا
اور
مودی
کے
نام
پر
ووٹ
لیا
جارہا
ہے
اس
کا
صاف
مطلب
ہے
کہ
مودی
آر
ایس
ایس
کے
ایجنڈہ
کو
ہی
پورا
کریں
گے
خواہ
اس
کے
لئے
دستور
کو
بدلنا
پڑے
یا
اس
میں
کمزور
طبقات
واقلیتوں
کے
لئے
شامل
حقوق
کی
دفعات
کو
کمزور
کرنا
پڑے،
دستور
کے
ابتدائیہ
کو
بدل
کر
ایک
نیا
ابتدائیہ
لکھنا
پڑے
اور
منواسمرتی
کو
دستور
کا
حصہ
بناکر
اس
پر
مبنی
قانون
بنایا
جائے
جو
کہ
آہستہ
آہستہ
اس
طرف
جائے
کہ
ملک
میں
قائم
برہمن
واد
کے
ایجنڈہ
کو
نافذ
کرنے
کے
لئے
ہندؤں
کا
کوئی
بھی
طبقہ
چاہے
وہ
مودی
ہی
کیوں
نہ
ہوں
اسے
مجبور
کردیا
جائے
کہ
وہ
اس
کے
مطابق
اقدام
کرے۔
آر
ایس
ایس
نے
اپنے
مشن
کو
پورا
کرنے
کے
مقصد
سے
دستور
کو
کنارے
کرنے
اور
صہیونی
لابی
کی
مدد
سے
صہیونیوں
کو
اپنی
ایڈوائزری
بورڈ
میں
شامل
کرنے
تک
میں
کوئی
تکلف
نہیں
ہے۔
صہیونی
لابی
نہ
صرف
ظلم
وبربریت
پر
یقین
رکھتی
ہے
بلکہ
اس
کی
جتنی
بھی
خطرناک
شکلیں
ہیں
ان
پر
عمل
بھی
کرتی
ہیں۔
ان
میں
صابرہ
اور
شتیلا
جیسے
کیمپوں
کو
ختم
کرنا،فلسطین
کو
مٹانے
کی
کوشش
کرنا
جیسے
اقدام
پر
اسے
کوئی
تردد
نہیں
ہے۔
اسی
طرز
پر
ہندوستان
میں
اقلیتوں
بالخصوص
مسلمانوں
کے
خلاف
چاہے
نفرت
پیدا
کرنا
ہو،
ووٹوں
کو
پولورائز
کرنا
ہو،
حقوق
کو
پامال
کرنا
ہو،
آر
ایس
ایس
کے
ایجنڈہ
کا
حصہ
ہے۔
آر
ایس
ایس
کا
یقین
چونکہ
منواسمرتی
پرہے،
اور
دلت
ودیگر
کمزور
طبقات
کو
جو
موجودہ
حقوق
اس
ملک
کے
دستور
نے
دیا
ہے
اور
آفرمیٹیو
ایکشن
کے
ذریعہ
اس
کو
تقویت
دی
ہے،
اسے
پامال
کرنے
کی
کوشش
کی
جائے
گی
اور
پورا
ملک
ایک
منڈی
کی
طرح
سے
سرمایہ
داروں
کا
بازار
بنے
گا
جس
کے
اندر
وہ
تمام
روایتی
کاروبار،
دستکاری،
غریبوں
کو
زندہ
رہنے
اور
ان
کے
آگے
بڑھنے
کے
کاروبار
کو
متاثر
کرے
گا۔
ملک
کا
دستور
جو
ایک
شہری
کو
آزادی
دیتا
ہے
اس
کے
ذریعہ
اسے
اقتصادی
غلامی
میں
لایا
جائے
اور
اس
کے
حقوق
واختیارات
کو
بنیادی
حقوق
میں
شامل
کیا
گیا
ہے
اس
کے
ذریعہ
مسدود
ہوکر
رہ
جائے
گا
جو
کہ
پورے
ملک
کے
سامنے
ایک
بڑ
اچیلنج
ہے۔
کسی
بھی
ملک
کے
شہری
بالعموم
رائے
دہندگان
کی
دانشمندی
اور
پہچان
یہ
ہوتی
ہے
کہ
پید
اہونے
والے
چیلنج،
ان
کی
نوعیت،
اس
کے
اثرات
اور
مستقبل
میں
کیسے
کیسے
خطرات
پیدا
ہوسکتے
ہیں،
کے
ادراک
اور
فہم
پیدا
ہوجائے،
ہمیں
یقین
ہے
کہ
ہمارے
ملک
کے
رائے
دہندگان
جیسا
کہ
ماضی
کے
الیکشن
سے
پتہ
چلتا
ہے
کہ
بہت
حد
تک
اس
پہلو
پر
ان
کا
فہم
اور
ادراک
قابل
تحسین
رہا
ہے۔
لیکن
اس
وقت
کے
چیلنج
کی
نوعیت
سنگین
ہونے
کے
نتیجہ
میں
چند
باتوں
کی
جانب
بطور
تذکیر
اور
اپنی
حکمت
عملی
کو
مرتب
کرنے
کے
لئے
اشارہ
کیا
جارہا
ہے۔
کمزور
طبقات
چاہے
وہ
دلت
ہوں،
اقلیت
ہوں،
جنگلوں
میں
رہنے
والے
آدی
واسی
ہوں
یا
مسلمان
ہوں
انھیں
قانون
کی
ضرورت
اور
دستور
کی
حفاظت
دوسروں
سے
زیادہ
ہے
تاکہ
ملک
کے
سیکولر
فیبرک
کو
مضبوط
کیا
جائے،
بھائی
چارگی
کو
آگے
بڑھایا
جائے
اور
غلامی
کے
شکنجہ
خاص
طور
سے
اقتصادی
غلامی
کے
طوق
سے
بچایا
جائے۔
ظاہر
ہے
کہ
دستوری
اور
جمہوری
ملک
میں
کشمکش
سے
باہر
نکلنے
اور
مقابلہ
آرائی
صرف
دو
ہی
ذرائع
سے
کی
جاسکتی
ہے۔
ایک
اپنی
ذہانت
کااستعمال
جسے
بعض
لوگ
سپیر
یئر
برین (
اعلیٰ
درجہ
کی
ذہانت)
کہتے
ہیں
اور
دوسرے
دستور
کے
ذریعہ
جو
گارنٹی
دی
گئی
ہے
وہ
ہے
حق
رائے
دہندگی
کا
استعمال۔
ملک
کے
وہ
تمام
نوجوان
جو 18
سال
کی
عمر
کو
پہونچ
گئے
ہیں۔
وہ
اس
بات
کو
اچھی
طرح
سمجھتے
ہیں
کہ
اس
ملک
کو
آگے
لے
جانے
اور
ترقی
کی
منازل
طے
کرنے
کے
لئے
دستور
ہی
ایک
ذریعہ
ہے،
اور
ایسے
جتنے
بھی
خدشات
اور
جتنی
بھی
طاقتیں
ہیں
جو
دستور
کو
تباہ
وبرباد
کرنا
چاہتی
ہیں
انھیں
اپنے
ووٹ
کے
ذریعہ
کنارہ
کرسکتے
ہیں۔
واضح
رہے
کہ
یہ
ذمہ
داری
صرف
اور
صرف
مسلمانوں
کی
نہیں
ہے
بلکہ
مسلمان
تصور
رحمت،
برابری
اور
انصاف
کا
داعی
بھی
ہے
اور
سارے
انسانوں
کو
اپنا
بھائی
سمجھتا
ہے
اس
لئے
اس
کی
ذمہ
داری
بڑھ
جاتی
ہے
کہ
ان
کو
ساتھ
لیکر
آگے
بڑھیں۔
سافٹ
ہندوتوا
ہو
یا
سخت
ہندتوا
سے
روکنے
کے
لئے
ریاستی
سطح
پر
حلقہ
وار
فیصلے
اس
طرح
کریں
کہ
جو
لوگ
ملک
کی
تہذیب
وتمدن
کو
تباہ
کرنا
اور
میل
محبت
کو
برباد
کرکے
آپسی
بھائی
چارگی
کو
منتشر
کرنے
کے
درپے
ہیں
انھیں
شکست
دینا
ضروری
ہے۔
یہ
ہماری
حب
الوطنی
اور
دستور
پر
عمل
کرنے
کا
مظہر
ہے،
نیز
دینی
فریضہ
بھی
ہے۔
اس
لئے
ضرورت
اس
بات
کی
ہے
کہ
اپنے
اپنے
تعصبات
سے
بلند
ہوکر
ملک
کو
بچانے
اور
دستوری
حکومت
قائم
کرنے
اور
فاشسٹ
طاقتوں
کو
یہ
موقع
نہ
دینے
کیلئے
مکمل
دستوری
جدوجہد
کریں۔
16ویں
لوک
سبھا
انتخابات
کے
خطرات
اور
چیلنج
اس
بات
کے
متقاضی
ہیں
کہ
ملک
کے
انصاف
پسند
اور
کمزور
طبقات
نیز
اقلیتیں
مل
جل
کر
اس
فیصلے
پر
عمل
کریں
بصورت
دیگر
عمل
نہ
کرنے
کے
ہی
قصوروار
نہیں
ہوں
گے
بلکہ
خطرات
کو
جاننے
کے
باوجود
اپنے
سر
کو
اس
کے
سامنے
خم
کرنے
کے
مترادف
ہوگا۔
(مضمون
نگار
آل
انڈیا
ملی
کونسل
کے
جنرل
سکریٹری
ہیں))
Back Home
|