’’وحدت امت کا تصور ۔ اسلامی تعلیمات میں‘‘کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار
دائیں سے۔پروفیسر افضل وانی،پروفیسر ظہور محمد خاں، پروفیسر سعود عالم قاسمی، ڈاکٹر محمدمنظور عالم، مولانا یعقوب قادری اور مولانا صفدر زبیر ندوی
دنیا کے بالخصوص ہندستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز اور فقہ اکیڈمی (انڈیا) نے اس عنوان کے تحت سیمینار کرکے امت اسلامیہ کے ہر طبقہ کے نمائندے افراد کو مدعو کیا کہ وہ اس عنوان کے تحت اپنا اپنا مقالہ پیش کریں چنانچہ اس کے افتتاحی پروگرام کی صدارت انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے فرمائی جبکہ اسٹیج پر ڈاکٹر سعود عالم قاسمی علی گڑھ مسلم یونیو رسٹی اور پروفیسر ظہور محمد خاں سکریٹری جنرل آئی او ایس بھی جلوہ افروز تھے۔ اس کے علاہ اسی پروگرام میں دو نشست ہوئی۔ جس میں سات مقالہ نگاروں نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔ افتتاحی پروگرام کی صدارتی کلمات میں ڈاکٹر محمد منظور عالم نیکہا کہ یہ دور بہتر اور کمتر دماغ کی لڑائی کا ہے اس فرق کو سمجھے بغیرہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔انھوں کہا کہ انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کے مطابق ایک سو سال کاکام 20سال میں پورا ہوجائے گا یعنی 5صدی کا کام ایک صدی میں پورا ہوگا۔ یہ آگے بڑھنے کا ذریعہ بھی ہے اور تباہی کا راستہ بھی، جو کہ اس کے استعمال پر محضر ہے۔
پروفیسر ظہور محمد خاں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ وہ اقدام کریں لیکن اقدام کامطلب جنگ وجدال نہیں ہے۔ گزشتہ صدی میں مسلمانوں نے سوشلزم اور نیشنلزم کے دفاع میں لڑائی لڑی لیکن جو چیلنج سامنے آیا اس کے تدارک کے طور پر کتابیں کم آئی۔ 21ویں صدی میں انسان بانجھ کی حیثیت سے گزررہا ہے وہ کوئی آئیڈیا لوجی دینے سے قاصر ہے جو انسان کی رہنمائی کرسکے۔ ڈاکٹر عالم نے کہا کہ دنیا کی تمام مذہبی کتابیں سوائے قرآن کے سبھی میں تحریف ہوگئی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان کی نہیں انسانیت کی بات کریں۔ سماج کے وہ طبقات جو حاشیے پر ہیں ان تک اسلام کا پیغام پہونچائیں۔ اس طرح کے 25مسائل کی نشاندہی کریں جس کے ذریعہ پہل کی جاسکتی ہے۔ یہی اقدامی پہل ہے۔
مولانا صفدر زبیر ندوی تقریر کرتے ہوئے
ڈاکٹر عالم نے کہا کہ جہالت اور غربت ہمارے دو دشمن ہیں۔ ان کے خلاف کام کرنا چاہیے۔ انھوں نے سوال کیا کہ یہاں بین المذاہب اور بین المسالک کی بات تو ہورہی ہے لیکن بین المدارس کی بات کیوں نہیں ہور رہی ہے جہاں سے اس کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ انھوں نے اہل علم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر اتحاد پیدا کریں اور دشمن میں انتشار پیدا کریں یہ پروگرام اس مہم کا آغاز ہے۔
مولانا یعقوب قادری تقریر کرتے ہوئے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کے پروفیسر سعود عالم قاسمی نے اپنی گفتگو میں اتحاد اور اسلام کے رشتے کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد کے تقاضے کچھ اور ہیں اسلام کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم شیعہ اور سنی ایک ہوں کی بات کرتے ہیں تو یہ اتحاد کی بات ہوتی ہے لیکن جب ماتم پر بات کرتے ہیں تو یہ اسلام کی بات ہے۔ دونوں میں منصفانہ راستہ کیا ہو اس پر غور کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قرآن نے زبان سے زیادہ حکمت پر زور دیا ہے جبکہ سارا معاملہ زبان کا پیدا کردہ ہے۔ ہندستان میں اسلام حکمت عملی سے ہی آگے بڑھے گا۔ قرآن نے اہل کتاب سے ایک اللہ کی بنیاد پر اتحاد کرنے کی بات کہی ہے لیکن مشرکین سے ایک اللہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماجی کاموں کی بنیاد پر اتحاد کرنے کی بات کہی ہے۔
پروفیسر سعود عالم قاسمی تقریر کرتے ہوئے
اسلامی فقہ اکیڈمی کے سکریٹری امین عثمانی نے عالم اسلام کے معروف عالم دین ڈاکٹر طہ جابر العلوانی کے حوالے سے کہا کہ مسلم دنیا میں مدارس کے موجودہ نصاب کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں کیونکہ اس سے امام، خطیب، قاضی وغیرہ نکلتے ہیں وہاں خلل ہے، اس کمی کو دور کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا اس کے بغیر عالمی سطح پر کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے کہا کہ دینی قیادت کو خلوص، نیک نیتی اور عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اس کے بغیر اتحاد نہیں ہوسکتا ۔
ڈاکٹر محمدمنظور عالم خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے
سمینار میں اظہار کرنے والوں میں مفتی محمد مقصور فرقانی رامپور نے ’وحدت امت کے قیام کے لیے بین المسالک مذاکرات کی ضرورت‘، مولانا منصف قاسمی امروہہ نے ’اختلاف مسالک وحدت میں حائل نہیں‘، ڈاکٹر شکیب سفیان قاسمی دیوبند نے ’وحدت امت۔آیات واحادیث اور آثار کی روشنی میں‘، ڈاکٹر توقیر احمد فلاحی علی گڑھ نے ’انتشار ملت وقت کا ایک بڑا چیلنج‘، ڈاکٹر ندیم اشرف علی گڑھ نے ’تکثیری سماج میں بقائے باہم اور وحدت کا تصور‘، مولانا ظفر دارک قاسمی نے ’اتحاد امت کا قیام او رمذاکرات بین المسالک‘، مولانا ارشد فاروقی دیوبند نے ’وحدت کی راہ میں دشواریاں‘، ڈاکٹر جنید حارث دہلی نے ’وحدت امت کے لیے بین المسالک مذاکرات کی ضرورت‘ اور مولانا انعام اللہ فلاحی دہلی نے ’ہندستان میں وحدت امت کی بازیابی میں مسلم تنظیموں کا رول‘ پر انتہائی پرمغز مقالے پیش کیے۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر نکہت حسین ندوی نے انجام دئے جبکہ شرکاء میں دانشور اور علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
دائیں سے۔مفتی محمد مقصود فرقانی، ڈاکٹر شکیب سفیان قاسمی، ڈاکٹر توقیر عالم فلاحی، پروفیسر سعود عالم قاسمی، ڈاکٹر ندیم اشرف اور مولانا ظفر دارک قاسمی
اختتامی نشست کی صدارت ڈاکٹر پروفیسر اشتیاق دانش نے کی اس موقع پر مقالہ نگار کی حیثیت سے مولانا مفتی ارشد فاروقی نے خطاب فرمایا، دوسرے مقالہ نگار جناب پروفیسر حارث جنید نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروفیسر اشتیاق دانش نے انسٹی ٹیوٹ کی کارکردگی اور اس طرح کے اقدام کو سراہتے ہوئے بتایا کہ یہ وقت کی بڑی اہم ضرورت ہے جس کی طرف انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے یہ قدم اٹھایا۔
دائیں سے۔مولانا حارث جنید، پروفیسر اشتیاق دانش، ڈاکٹر محمد منظور عالم، مولانا ارشد فاروقی اور مولانا صفدر زبیر ندوی
اس پروگرام کے اختتام پر انسٹی ٹیوٹ کے کارکن خالد حسین ندوی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے حاضرین کی توجہ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ ۲۰۰۹ء میں منعقد ہونے والے اس سیمینار کی جانب کرائی جو ’’اسلام میں اختلاف کے آداب‘‘ کے عنوان سے دیوبند میں منعقد ہوا تھا جس کا مقصد ملت اسلامیہ کے مختلف مکاتب ومسالک کی بنیاد پر پائے جانے والے اختلاف کو کم کرنا اور اتحاد واتفاق کی فضا قائم کرنا تھا۔ موصوف نے بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ کا بنیادی مقصد ملت اسلامیہ کو غوروفکر کے لیے ایک مشترکہ اور متحدہ پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے، جس پروہ شروع سے ہی کاربند ہے۔
سامعین کرام |